
ستمبر 2025 کو وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ریاض میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ایک تاریخی اسٹریٹیجک ڈیفنس پیکٹ پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت دیتا ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمی مبصرین نے اس پیش رفت کو مسلم دنیا کے لیے ممکنہ نیا سکیورٹی فریم ورک اور عالمی طاقتوں کے لیے چیلنج قرار دیا ہے۔
ریاض میں وزیراعظم شہباز شریف کا استقبال غیر معمولی پروٹوکول کے ساتھ کیا گیا۔ ایئرپورٹ پر سعودی وزیر دفاع اور شاہی گارڈز کے کمانڈر نے گارڈ آف آنر پیش کیا، جبکہ شہر کی مرکزی شاہراہوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیے گئے۔ شاہی محل میں خصوصی ضیافت اور ون آن ون ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ سعودی میڈیا نے اس موقع کو “تاریخی اور نئے دور کا آغاز” قرار دیا۔
اس معاہدے کی سب سے نمایاں شق یہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوگا تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا، جو نیٹو طرز کی اجتماعی دفاعی ضمانت کی یاد دلاتی ہے۔ معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ دونوں ممالک ہر سال مشترکہ فوجی مشقیں کریں گے اور انسداد دہشت گردی و سائبر سکیورٹی میں انٹیلی جنس تعاون بڑھائیں گے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں ڈرون ٹیکنالوجی، میزائل پروگرامز اور ایئر ڈیفنس سسٹمز شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستانی فوجی افسران کی جانب سے سعودی افواج کی تربیت کو باضابطہ شکل دی گئی ہے۔ ایک اعلیٰ سطحی دفاعی کمیٹی سال میں دو بار معاہدے کے نفاذ کا جائزہ لے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے دستخط کے بعد کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا اور یہ صرف دو طرفہ تعلقات نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے قدرتی شراکت دار ہیں اور یہ معاہدہ مسلم دنیا کے اجتماعی تحفظ کا عکاس ہے۔
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ یہ معاہدہ کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی خودمختاری اور سلامتی کے محافظ ہیں۔
عالمی سطح پر اس معاہدے نے فوری ردعمل پیدا کیا۔ بھارتی تجزیہ کار سوشانت سنگھ نے اعتراف کیا کہ بھارت کی گیارہ سالہ پالیسی پاکستان کو تنہا کرنے میں مکمل ناکام ہو گئی ہے، کیونکہ آج پاکستان کے قریب چین، امریکہ اور اب سعودی عرب بھی موجود ہیں۔ پاکستانی ماہر اختر رابعہ نے کہا کہ یہ معاہدہ جنگ کا وعدہ نہیں بلکہ صرف دیرینہ تعلقات کو تحریری شکل دینے کی کوشش ہے، اور یہ کسی نیوکلیئر چھتری کا متبادل نہیں۔
امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد نے معاہدے پر سوال اٹھایا کہ کیا سعودی عرب اب دفاع کے لیے امریکہ پر بھروسہ نہیں کر رہا؟ ان کے مطابق یہ سوال آئندہ برسوں میں خطے کی سیاست پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے اسے مسلم دنیا کے لیے تاریخی پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ یہ مغرب پر انحصار کے خاتمے اور اسلامی اتحاد کے آغاز کی علامت ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار مقصود فیرس کے مطابق سعودی عرب نے معاہدہ سائن کرنے کے بعد ہی امریکہ کو آگاہ کیا، جو واشنگٹن کے لیے ایک بڑا پیغام ہے۔
اس کے علاوہ امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے کہا کہ پاکستان نے یہ قدم ایسے ملک کے ساتھ اٹھایا ہے جو بھارت کا قریب ترین اتحادی ہے، اور اب پاکستان کے پاس چین، ترکی اور سعودی عرب کی حمایت موجود ہے، جو اس کے سفارتی وزن میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے دو طرفہ تعلقات کو نئی جہت دیتا ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مبصرین کے نزدیک یہ پیش رفت مستقبل میں مغربی اثر و رسوخ کے مقابلے میں مسلم بلاک کی بنیاد بھی ڈال سکتی ہے۔
تاہم یہ سوال ابھی باقی ہے کہ آیا یہ اتحاد صرف علامتی قدم ہوگا یا واقعی مسلم دنیا کے لیے نیٹو طرز کا مؤثر سکیورٹی فریم ورک بن سکے گا۔




