
میرا پسندیدہ فیلڈ مارشل،غزہ اعلامیہ پر دستخط کے بعد پریسر کے 5 قابل ذکر لمحات
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک شاندار دن قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ انہوں نے اور علاقائی رہنماؤں نے غزہ میں جنگ بندی کے اعلان پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کے چند گھنٹے بعد ہی اسرائیل اور حماس نے قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ کیا۔
مصری سیاحتی مقام شرم الشیخ میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں جس میں دو درجن سے زائد عالمی رہنماؤں نے شرکت کی، ٹرمپ اور مصر، قطر اور ترکی کے رہنماؤں نے اس معاہدے پر بطور ضامن دستخط کیے۔یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب دنیا نے اسرائیلی فوجی کارروائی کے دو سال مکمل ہونے پر غزہ میں 67 ہزار سے زائد ہلاکتوں کی یاد منائی۔
اجلاس کے آغاز میں ٹرمپ نے مصر، قطر اور ترکی کے رہنماؤں کے ساتھ ایک دستاویز پر دستخط کیے جس میں غزہ کے معاہدے کا خیرمقدم کیا گیا اور یہ عزم کیا گیا کہ وہ اجتماعی طور پر اس امن وراثت کو برقرار رکھنے کے لیے کام کریں گے۔
یہاں دستخطوں کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس کے پانچ اہم لمحات پیش کیے جا رہے ہیں۔
” پاکستان–امریکہ کی دوستی اور ” پسندیدہ فیلڈ مارشل
اپنی تقریر میں امریکی صدر نے خاص طور پر پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا ذکر کیا۔متعدد عالمی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم شریف اور مجھے یہ کہنا ہی پڑے گا کہ میرا پسندیدہ فیلڈ مارشل پاکستان سے ہے جو یہاں نہیں ہیں لیکن وزیرِاعظم موجود ہیں،آپ ان تک میری نیک خواہشات پہنچائیں۔
ٹرمپ نے پیچھے مڑ کر حاضرین میں وزیراعظم شہباز کو تلاش کیا اور جب انہیں دیکھا تو کہا،آئیے،آگے آئیے اور چند الفاظ کہیں۔
پریس کانفرنس میں صرف ٹرمپ، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب کیا۔اپنی باری پر وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا۔
انہوں نے کہا“میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ وہ امن کے سب سے مخلص اور بہترین امیدوار ہیں۔ انہوں نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن قائم کیا، لاکھوں جانیں بچائیں، بلکہ آج شرم الشیخ میں غزہ کے لیے امن حاصل کر کے مشرقِ وسطیٰ میں بھی لاکھوں زندگیاں بچائی ہیں۔
ٹرمپ مسکراتے ہوئے بولے“واہ! میں نے یہ توقع نہیں کی تھی۔ چلیے گھر چلتے ہیں،اب میرے پاس کچھ کہنے کو نہیں بچا۔ سب کو الوداع۔ یہ واقعی خوبصورت اور دل سے کی گئی بات تھی، بہت شکریہ۔”
بعد ازاں ٹرمپ نے بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا
بھارت ایک عظیم ملک ہے،وہاں میرا ایک بہت اچھا دوست حکومت میں ہے۔اس نے شاندار کام کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت بہت اچھے طریقے سے ساتھ رہنے والے ہیں، ٹھیک؟ یہ سن کر وزیراعظم شہباز شریف نے مسکراتے ہوئے ٹرمپ کی طرف دیکھا اور دونوں نے قہقہہ لگایا۔
خوبصورت’ اطالوی وزیراعظم میلونی
غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے بعد ٹرمپ کے چہرے پر خوشی نمایاں تھی۔ وہ حسبِ معمول مختلف رہنماؤں سے مزاحیہ انداز میں بات کرتے رہے۔
انہوں نے مصر کے صدر السیسی کے بارے میں کہا
“ان کے ہاں جرم بہت کم ہے” — حالانکہ مصر پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں۔متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور مانچسٹر سٹی فٹبال کلب کے مالک شیخ منصور سے ملاقات کے دوران بولے
“بہت سارا پیسہ ہے، لامحدود دولت!”
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو “سخت مزاج آدمی” قرار دیا۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی کے بارے میں کہا:
“وہ خوبصورت ہیں۔”
79 سالہ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں معلوم ہے اس طرح کی بات پر امریکہ میں انہیں “خواتین مخالف” کہا جا سکتا ہے، مگر وہ ہنس کر بولے
“امریکہ میں اگر آپ کسی خاتون کو خوبصورت کہہ دیں تو آپ کا سیاسی کیریئر ختم ہو جاتا ہے لیکن میں خطرہ مول لیتا ہوں۔”
میلونی کی طرف مڑ کر ٹرمپ نے کہا
“آپ کو برا تو نہیں لگتا اگر میں کہوں کہ آپ خوبصورت ہیں؟ کیونکہ آپ واقعی ہیں۔”کیمرے کی سمت ٹرمپ کی پشت تھی، اس لیے میلونی کا فوری ردعمل نظر نہیں آیا۔ تاہم ٹرمپ نے مزید کہا
“انہیں اٹلی میں بہت عزت دی جاتی ہے۔ وہ ایک کامیاب سیاستدان ہیں۔”میلونی تقریب میں موجود تقریباً 30 عالمی رہنماؤں میں واحد خاتون تھیں۔
برطانیہ کے اسٹارمر کے ساتھ ہلکی سی بےرُخی
ملکوں کی فہرست گنواتے ہوئے ٹرمپ نے کہا:
“برطانیہ — برطانیہ کہاں ہے؟”
برطانوی وزیراعظم کئیر اسٹارمر نے ہاتھ اٹھایا، تو ٹرمپ نے کہا: “آئیے، یہاں آئیں۔”
پھر پوچھا
“سب ٹھیک چل رہا ہے؟”
اسٹارمر نے مصافحہ کیا لیکن ٹرمپ نے انہیں بات کرنے کی دعوت نہیں دی جیسا کہ انہوں نے شہباز شریف کو دی تھی۔ اس کے بعد ٹرمپ مائیک کی طرف پلٹ گئے اور اسٹارمر خاموشی سے واپس اپنی جگہ چلے گئے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی غیر موجودگی
اجلاس میں دو درجن سے زائد عالمی رہنما شریک تھے جن میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس شامل تھے لیکن اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور حماس کے نمائندے غیر حاضر تھے۔
نیتن یاہو کی عدم شرکت پر تنازع بھی پیدا ہوا۔ قاہرہ نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ شریک ہوں گے، مگر اسرائیلی دفترِ وزیراعظم نے کہا کہ وہ یہودی مذہبی تعطیل کے باعث نہیں آئیں گے۔
بیان میں کہا گیا وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کا دعوت نامہ اور ان کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا جو انہوں نے طاقت کے ذریعے امن کے دائرے ترک حکام کے مطابق،صدر اردوان اور چند دیگر رہنماؤں نے نیتن یاہو کی شرکت پر سفارتی طور پر اعتراض کیا تھا۔کو وسیع کرنے کے لیے کیں۔
فِیفا کی موجودگی
ایک دلچسپ موڑ پر یہ بات سامنے آئی کہ فیفا کے صدر جیانی انفانٹینو بھی اجلاس میں موجود تھے اور دستخطوں کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران عالمی رہنماؤں کے ساتھ کھڑے تھے۔
! ٹرمپ نے انہیں دیکھ کر کہا ارے، ہمارے پاس جیانی بھی ہیں۔ ہم ورلڈ کپ جا رہے ہیں، میں یہ کہہ سکتا ہوں
فیفا کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق، انفانٹینو نے اپنے بیان میں کہا یہ واقعی ایک تاریخی دن ہے مشرقِ وسطیٰ کے لیے، دنیا کے لیے، امن کے لیے۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا، یہ ایک نیا آغاز ہے۔ اور فیفا کے لیے فخر کی بات ہے کہ ہم یہاں امن کے اس عمل میں ہر ممکن مدد فراہم کر سکیں۔