مودی کا مقبوضہ کشمیر میں الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 1996 کے بعد پہلی بار مقبوضہ کشمیر میں الیکشن نہیں لڑرہی۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے” رائٹرز “کے مطابق بھارت میں 19 اپریل سے شروع ہونے والے انتہائی اہم عام انتخابات کے لیے نریندر مودی پورے ملک کا دورہ کررہے ہیں لیکن اس بار غیر معمولی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس بار مقبوضہ کشمیر سے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں 3 نشستوں کے لیے اہم امیدوار مضبوط مقامی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ہیں۔
دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کریں گی لیکن دونوں کا کہنا ہے کہ وہ ہندو قوم پرست بی جے پی کے مخالف ہیں اور کانگریس پارٹی کی قیادت والے اپوزیشن اتحاد کے ساتھ اتحاد کریں گے۔
ماہرین اور حزب اختلاف کی جماعتوں کا خیال ہے کہ بی جے پی نے کشمیر میں انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس کے نتائج سے یہ ظاہر ہو سکتا ہے کہ کشمیر اتنا پرامن اور مربوط نہیں ہے جیسا کہ مودی دعویٰ کر رہے ہیں۔
بی جے پی اپنے اتحادیوں کے ساتھ بھارت کے دیگر تمام خطوں میں انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور امید ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی 543 نشستوں میں سے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، جس کی بڑی وجہ ہندو برادری کے مفادات کو ترجیح دینے کے لیے ان کی شہرت ہے۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما اور ریاست جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ’وہ الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لے رہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کے دعوے اور زمینی حقائق کے درمیان بہت بڑا فرق ہے‘۔
مودی کا دعویٰ ہے کہ 2019 میں ان کے فیصلے کی وجہ سے کئی سالوں کے تشدد اور بدامنی کے بعد کشمیر کے حالات معمول پر آگئے ہیں، وہ جلد ہی خطے میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے حکومت کے موقف کی حمایت کی ہے کہ نوجوان اب اپنے ہاتھوں میں ’پتھر جو وہ ماضی میں سیکورٹی فورسز پر پھینکتے تھے‘ کے بجائے لیپ ٹاپ پکڑے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت میں برسراقتدار بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت نے انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔
اس فیصلے کے ایک حصے کے طور پر ریاست جموں و کشمیر کو دو وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک مسلم اکثریتی کشمیر وادی جس میں ہندو اکثریتی جموں کے میدانی علاقے ہیں، دوسرا لداخ کا پہاڑی علاقہ ہے جو کہ زیادہ تر بدھ مت ہے۔