
وہائٹ ہاؤس میں ایم بی ایس کی آمد: تیل، سکیورٹی اور ہائی ٹیک تعاون میں توسیع پر بات چیت
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ایکسپریس ٹربیون کے مطابق سعودی عرب کے ڈی فیکٹو حکمران ولی عہد محمد بن سلمان (ایم بی ایس) منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وہائٹ ہاؤس میں ملاقات کے لیے پہنچے، جس کا مقصد تیل اور سکیورٹی کے شعبوں میں دہائیوں پر مشتمل تعاون کو گہرا کرنا اور تجارت، ٹیکنالوجی اور ممکنہ طور پر جوہری توانائی میں نئے مواقع تلاش کرنا ہے۔
یہ 2018ء میں استنبول میں سعودی ایجنٹوں کے ہاتھوں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ایم بی ایس کا پہلا دورۂ امریکہ ہے۔ امریکی انٹیلیجنس نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ کارروائی ولی عہد کی منظوری سے ہوئی، جبکہ ایم بی ایس نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے حکم دیا تھا، البتہ انہوں نے بطور حکمران ذمہ داری قبول کی۔
سات سال سے زیادہ عرصے بعد دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک دوبارہ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ مئی میں اپنے دورۂ سعودی عرب کے دوران کیے گئے 600 ارب ڈالر کے سعودی سرمایہ کاری وعدے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔انہوں نے اس وقت انسانی حقوق کے مسائل اٹھانے سے گریز کیا تھا اور اس بار بھی ایسا ہی کرنے کی توقع ہے۔
سعودی ولی عہد خطے کی کشیدگی کے پیشِ نظر سکیورٹی گارنٹیز، مصنوعی ذہانت (اے آئی) تک رسائی اور سول جوہری پروگرام میں پیش رفت کے خواہاں ہیں۔ سعودی ماہرِ بین الاقوامی تعلقات عزیز الغاشعین کے مطابق خاشقجی کے معاملے کا صفحہ پلٹ دیا گیا ہے۔
دفاعی معاہدے پر توجہ
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان عرصہ دراز سے ایک سمجھ بوجھ ہے: سعودی عرب سازگار قیمتوں پر تیل فراہم کرتا ہے اور امریکہ اس کی سکیورٹی میں مدد دیتا ہے۔ لیکن 2019ء میں ایران کے سعودی آئل تنصیبات پر حملے کے وقت امریکی عدم ردعمل نے اس توازن کو ہلا دیا۔
یہ خدشات اس وقت پھر ابھرے جب ستمبر میں اسرائیل نے دوحہ (قطر) پر حملہ کیا، جسے اس نے حماس کے ارکان کو نشانہ بنانے کی کارروائی قرار دیا۔
اس کے بعد ٹرمپ نے قطر کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے دستخط کیے۔ اب تجزیہ کاروں اور علاقائی حکام کا خیال ہے کہ سعودی عرب کو بھی کچھ اسی قسم کی یقین دہانی مل سکتی ہے۔
سعودی عرب ایک مکمل دفاعی معاہدہ چاہتا ہے جس کی کانگریس توثیق کرے، لیکن واشنگٹن اس شرط کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن سے جوڑ رہا ہے۔ ریاض نے بدلے میں اسرائیلی حکومت سے فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو جنہوں نے گزشتہ ماہ غزہ میں دو سالہ جنگ کے بعد ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی قبول کی—نے اتوار کو ایک بار پھر فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت دہرائی۔
ایگزیکٹو آرڈر، جیسا کہ قطر کے لیے جاری ہوا، سعودی عرب کی خواہش سے کمزور ہوگا، لیکن الغاشعین کے مطابق یہ “ایک مرحلہ ہوگا، آخری مقصد نہیں۔”
ایک مغربی سفارتکار نے کہا ٹرمپ نارملائزیشن چاہتے ہیں اور سعودی ایک مکمل دفاعی معاہدہ۔ حالات دونوں کو پورا ہونے نہیں دیتے آخر میں دونوں فریق اپنی خواہش سے کم حاصل کریں گے یہی سفارتکاری ہے۔
سابق امریکی مذاکرات کار ڈینس راس کے مطابق، متوقع ایگزیکٹو آرڈر امریکہ اور سعودی عرب کو ‘‘خطرے کی صورت میں فوری مشاورت’’ کا پابند کرے گا، مگر امریکہ کو سعودی عرب کے دفاع کا پابند نہیں بنائے گا۔
ان کے مطابق اس کا دائرہ مدد فراہم کرنے، اسلحہ بدلنے، تھاد یا پیٹریاٹ میزائل بیٹریاں تعینات کرنے، یا نیول فورسز بھیجنے سے لے کر ممکنہ طور پر جنگی کارروائی میں شریک ہونے’’ تک ہوسکتا ہے۔
علاقائی مقابلے کے تناظر میں اے آئی اور جوہری توانائی کی اہمیت
ریاض ویژن 2030 کے تحت معیشت کو متنوع بنانے اور خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے جوہری توانائی اور مصنوعی ذہانت کے معاہدوں پر زور دے رہا ہے۔
اعلیٰ درجے کے کمپیوٹر چپس تک رسائی سعودی عرب کی اے آئی مرکز بنانے کی کوششوں کے لیے انتہائی اہم ہے خاص طور پر اس وقت جب متحدہ عرب امارات (یو اے ای) جون میں ایک بڑا امریکی ڈیٹا سینٹر معاہدہ کرکے اعلیٰ ترین چپس تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔
ایم بی ایس ایک امریکی تعاون یافتہ سول جوہری پروگرام بھی چاہتے ہیں، تاکہ سعودی عرب تیل سے آگے بڑھنے والے منصوبوں میں یو اے ای اور ایران کے مقابل کھڑا ہوسکے۔
تاہم مذاکرات اس وجہ سے سست ہو گئے کیونکہ امریکہ سعودی عرب سے ایسے جوہری اصول منوانا چاہتا ہے جو یورینیم کی افزودگی یا خرچ ایندھن؛ دوبارہ پروسیسنگ کو روکیں—جو جوہری ہتھیار بنانے کے ممکنہ راستے ہیں۔
ڈینس راس کے مطابق، جوہری توانائی سے متعلق کسی نہ کسی پیشرفت یا کم از کم ‘‘پیشرفت کے اظہار’’ کا اعلان ممکن ہے۔



