اسرائیل حماس کو ختم نہیں کر سکتا : امریکی حکام
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی حکام اس امر کا پوری طرح یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل کی غزہ پر مسلسل بمباری عام فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں اضافے کا باعث تو بن سکتی ہے مگر حماس کا خاتمہ اسرائیلی فوج سے ممکن نہیں ہے۔
اس سلسلے میں نیو یارک ٹائمز نے واشنگٹن میں موجود امریکی قومی سلامتی سے متعلق حکام کی مدد سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کبھی حماس کو ختم نہیں کر سکتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ‘ جیسا کہ جوبائیڈن انتظامیہ جنگ بندی مذاکرات کے لیے فریقین کو دھکیل رہی ہے۔امریکہ کے سینیئرحکام اس مطالبے اور مقصد کے لیے کوشاں ہیں کہ جنگ کا مکمل خاتمہ ہو جائے اور اسرائیلی فوج کی غزہ کی پٹی پر سرگرمیوں کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔
امریکی حکام کے یہ خیالات اس کے باوجود ہیں کہ اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اکتوبر سے اب تک غزہ جنگ میں حماس کے عسکری ونگ القسام کے 14000 جنگجو ہلاک کر دیے ہیں۔ نیز جنگووں کی نصف کی قیادت کو بھی ختم کر دیا ہے۔
تاہم دوسری جانب سے اسرائیل کے دعوے کو مبالغے سے بھر پورقرار دیا جاتا ہے۔ غزہ میں قائم وزارت صحت جو تقریباً ہر روز کی بنیاد پر غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعدادو شمار جاری کرتی ہے اس کے مطابق غزہ میں ہلاکتوں کی غالب تعداد عام شہریوں کی ہے اور اس میں سےدوتہائی تعداد فلسطینی بچوں اور عورتوں کی ہے۔وزارت صحت کے مطابق کل شہدا کی غزہ میں تعداد چالیس ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
نیوریارک ٹائم کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور اسرائیل کے دونوں کے سابق فوجی حکام اور موجودہ حکام دونوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ غزہ کا کوئی فوجی حل نہیں نکل سکتا ہے۔ امریکی سینٹ کام کے سابق سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہا ‘ بلا شبہ اسرائیل حماس کے نظم کو متاثر کرنے میں اور اس کے ارکان کو ختم کرنے میں اس حد تک کامیاب ہے کہ حما س سے جو خطرہ سات اکتوبر سے پہلے تھا اب اس میں کمی آگئی ہے۔
لیکن اس کے باوجود حماس کے ساتھ اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کو بات کرنا پڑے گی۔ گویا حماس ابھی غزہ میں موجود ہے، ختم نہیں ہو سکی ہے۔
اس حوالے سے واشنگٹن میں موجود امریکی حکام کے موقف میں تبدیلی کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مشرق وسطیٰ جا رہے ہیں اور ایرانی حملے کو روکنے کی کوشش کے لیے سفارتی کوششیں کر رہے ہیں۔
مگر کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ وہ اہم ترین اسرائیلی اتحادی ملک تھا جس نے غزہ جنگ بندی کی قرار داد کو سلامتی کونسل میں تین بار ویٹو کیا تھا۔ مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے کے چیف ولیم برنز کئی سفارت کار مشرق وسطیٰ میں اپنے اپنے مشن کے ساتھ مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ادھر اسرائیلی کابینہ تک میں رائے اور موقف کے ساتھ ساتھ مشاہدے اور تجربے کا واضح اختلاف ہے۔ کابینہ کے کئی ارکان وزیر دفاع کی سرزنش کرتے پائے گئے ہیں کہ یوو گیلنٹ نے غزہ پر مکمل فتح پانے کے موقف کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ وزیر دفاع اسرائیل کی مکمل فتح نہیں دیکھ پارہے جو کابینہ چاہتی ہے یا اعلان کرتی ہے۔
رواں سال کے شروع میں حماس کے حوالے سے اسرائیلی دعویٰ تھا کہ اس کی فوج نے شمالی غزہ سے حماس کا صفایا کر کے جبالیہ کیمپ میں اسے چیلنج نہیں رہنے دیا ، مگر ماہ مئی میں اسرائیلی فوج کواپنا دعوٰی اس وقت ختم کرنا پڑا جب وہاں عسکریت پسندوں نے پھر سرگرمیاں دکھائیں۔
امریکی پینٹاگون کے حکام نجی طور پر صورت حال پر گفتگووں کے دوران غزہ میں اسرائیلی ناکامی کا ذکر کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کو جس صلاحیت کا اظہار کرنا چاہییے تھا وہ نہیں کر سکی ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق حماس کا سرنگوں کا وسیع اور منظم نیٹ ورک، جو “اسرائیل کی توقع سے کہیں زیادہ بڑا ثابت ہوا۔ اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپوں کےساتھ ساتھ حماس نے مقامی سیلوں کی تعمیر نو کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ حتیٰ کہ جوبائیڈن انتظامیہ میں یہ رائے بڑھ رہی ہے کہ حماس کو جنگ بندی کے سلسلے میں اپنی ضمانت کی ضرورت ہو گی، اس سلسلے میں حماس کے لیے سب سے بڑی ترغیب ایک آزاد فلسطینی ریاست ہو گی۔