آئی پی پیز کو کی گئی کیپیسٹی پیمنٹس کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے، گوہر اعجاز
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کھربوں روپے کی کیپسٹی پیمنٹس کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان نیوز کے مطابق سابق نگران وفاقی وزیر تجرات گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ ایف پی سی سی آئی سپریم کورٹ میں درخواست دائرکرے گی، سپریم کورٹ سے صورتحال میں مداخلت کی درخواست کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ صورتحال ہرپاکستانی کےحق زندگی کو متاثر کررہی ہے، پاکستان چند سالوں میں ایک ہی غلطیاں دوبارہ نہیں برداشت کر سکتا۔
سابق وزیر کا کہنا تھا کہ وہ خوشحالی کے لیے صرف بدانتظامی کا خاتمہ چاہتے ہیں، مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی زیادہ قیمت شہریوں کو غربت میں دھکیل رہی ہے اور کاروبار کو دیوالیہ کر رہی ہے، حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ 24 کروڑ پاکستانیوں کی بقا زیادہ اہم ہے یا 40خاندانوں کے لیے یقینی منافع ضروری ہے۔
چند روز قبل، گوہر اعجاز نے وفاقی وزیر بجلی اویس لغاری سے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کی گئی ادائیگیوں کا ریکارڈ مانگا تھا،
ایک پریس ریلیز میں سابق وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کیا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کو ادا کی گئی کیپیسٹی پیمنٹس کا ریکارڈ بھی پبلک کیا جائے، آئی پی پیز کی پیداواری لاگت کا ڈیٹا عوام کے سامنے رکھا جائے، آئی پی پیز کو فیول کی مد میں ادا کی گئی رقوم کے بارے بتایا جائے اور آئی پی پیز کی جانب سے صارفین سے کی گئی وصولیوں کا ڈیٹا بھی عوام کے سامنے رکھا جائے۔
گوہر اعجاز نے کہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ انہیں کس نرخ پر بجلی فراہم کی جا رہی ہے؟ بجلی کی اصل قیمت 30 روپے فی یونٹ سے کم ہونی چاہیے، آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کیا جائے۔
یاد رہے کہ ٹیک اینڈ پے ایک معاہدہ ہے جو خریدار کو کسی بھی پروڈکٹ کو لینے کا پابند بناتا ہے اور اگر پروڈکٹ نہیں لی جاتی ہے تو ان کو ایک مخصوص رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔
سابق وزیر گوہر اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ حکومت جہاں سے سستی بجلی ملے وہاں سے خرید لے، 52 فیصد آئی پی پیز حکومتی ملکیت میں ہیں ، حکومتی آئی پی پیز 50 فیصد سے کم پیداواری صلاحیت پر چلائے جا رہے ہیں ،حکومتی آئی پی پیز صارفین سے 100 فیصد کیپسٹی چارجز وصول کر رہے ہیں ،48 فیصد آئی پی پیز 40 خاندانوں کی ملکیت ہیں۔