گھوٹکی: مقتول صحافی طفیل رند کی آٹھ سالہ بھتیجی صدمے سے دم توڑ گئی

گھوٹکی: مقتول صحافی طفیل رند کی آٹھ سالہ بھتیجی صدمے سے دم توڑ گئی
سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے میرپور ماتھیلو میں مقامی صحافی طفیل رند کو بدھ کی صبح نامعلوم مسلح افراد نے اُس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا جب وہ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے جا رہے تھے۔
پولیس کے مطابق حملہ جیروار روڈ پر ماسو واہ کے قریب پیش آیا۔ موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے طفیل رند کی گاڑی پر اندھا دھند گولیاں برسائیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہطفیل رند موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے بچے معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور فائرنگ کے بعد فرار ہو گئے جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس نے لاش کو ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتال میرپور ماتھیلو منتقل کیا جہاں ضابطے کی کارروائی کی گئی۔
سانحے کے بعد ایک اور سانحہ
قتل کی خبر سن کر طفیل رند کی آٹھ سالہ بھانجی شدید صدمے سے بے ہوش ہو گئی۔اسے میرپور ماتھیلو اسپتال پہنچایا گیا لیکن حالت تشویشناک ہونے کے باعث سکھر ریفر کر دیا گیا، جہاں پہنچنے سے قبل ہی وہ دم توڑ گئی۔اہل خانہ کے مطابق یہ سانحہ خاندان کے غم میں مزید اضافہ کر گیا۔
پولیس کی کارروائی
واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ایس ایس پی گھوٹکی انور کھتران جائے وقوعہ پر پہنچے، جائے حادثہ کا معائنہ کیا اور مقتول کے اہل خانہ سے ملاقات کر کے انہیں انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔
ایس ایس پی کھتران نے کہا ہے کہ قتل کے محرکات کے کئی پہلوؤں پر تفتیش کی جا رہی ہے۔ شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور جلد تمام ملزمان کو گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقتول صحافی کا اپنی ہی برادری کے افراد کے ساتھ گزشتہ چار برس سے زمین اور باہمی جھگڑے پر تنازعہ چل رہا تھا۔ اس تنازعے میں پہلے بھی دو افراد قتل ہو چکے تھے۔
ایس ایس پی نے بتایا ہے کہ رند نے چند ماہ پہلے اپنے گھر پر فائرنگ کے واقعے کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس وقت بھی ایک شخص کو گرفتار کیا گیا تھا اور طفیل رند نے پولیس کے اقدامات کو سراہا تھا۔ایس ایس پی گھوٹکی نے تصدیق کی کہ دو ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ مزید افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
حکومتی ردِعمل
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے فوری رپورٹ طلب کی۔انہوں نے کہا ہے کہ صحافیوں پر حملے دراصل آزادیٔ صحافت پر حملے ہیں،جنہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔وزیراعلیٰ نے پولیس کو غیرجانبدارانہ تفتیش کی ہدایت دی اور متاثرہ خاندان سے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے یقین دلایا کہ انصاف فراہم کیا جائے گا۔
جنازہ اور عوامی ردِعمل
طفیل رند کو گھوٹکی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ان کی نمازِ جنازہ میں شہریوں، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔مقامی افراد کے مطابق طفیل رند ایک نڈر اور سچ بولنے والے صحافی تھے جو ہمیشہ مظلوم اور محروم طبقے کے مسائل اجاگر کرتے تھے۔
صحافی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں کی مذمت
سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ یہ افسوسناک اور قابلِ مذمت واقعہ ہے، سندھ حکومت مقتول کے خاندان کے ساتھ کھڑی ہے۔”
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما طحہ احمد خان نے کہا طفیل رند کا بہیمانہ قتل آزادیٔ اظہار پر حملہ ہے، ہم صحافی برادری اور مقتول کے اہل خانہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔
سکھر کے میئر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے کہا کہ صحافیوں پر حملے آزادیٔ رائے کو دبانے کی کوشش ہیں اور ناقابلِ برداشت ہیں۔”
صحافی برادری کا احتجاج
قتل کے بعد صوبے بھر میں صحافی برادری نے احتجاج کیا۔گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں مظاہرے اور دھرنے دیے گئے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) اور مقامی پریس کلبز نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اور آواز خاموش کر دی گئی سچ بولنے کی سزا دی گئی۔انہوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ مقتول کے خاندان کو مالی و قانونی مدد فراہم کی جائے اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے واضح سکیورٹی پالیسی بنائی جائے۔
سینئر صحافی مظہر عباس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں صحافیوں کے قتل کے واقعات پھر بڑھنے لگے ہیں۔ امتیاز میر کے قتل کے بعد صرف دو ہفتوں میں طفیل رند کا قتل ہوگیا ہے۔ یہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔انہوں نے بتایا کہ مقتول کے مبینہ قاتل نے اپنے اعترافی بیان کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔
پس منظر
پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے مطابق 2025 میں ملک میں صحافیوں کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی مزید محدود ہوئی ہے۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (RSF) نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے مہلک ترین ممالک میں شمار کیا ہے۔
کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشی ایٹو (CHRI) کے مطابق 2006 سے 2023 کے دوران پاکستان میں 87 صحافی قتل ہوئے جن میں سے صرف دو مقدمات حل ہوئے۔
گھوٹکی ماضی میں بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوا ہے
اگست 2024 میں نامعلوم افراد نے گھوٹکی کے صحافی محمد بچل گھنیو کو قتل کر دیا۔
مئی 2024 میں گھوٹکی کے ہی صحافی نصراللہ گدانی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا ۔
طفیل رند کا قتل نہ صرف صحافی برادری بلکہ سماجی اور انسانی حقوق کے حلقوں کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔یہ واقعہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے جاری سنگین خطرات کو ایک بار پھر نمایاں کرتا ہے۔صحافی تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ حکومت اس قتل کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تفتیش کرے، ملزمان کو قرارِ واقعی سزا دلائے اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کے لیے جامع پالیسی مرتب کرے تاکہ مزید جانیں ضائع نہ ہوں۔






