
فیض حمید کیس، ناقابلِ گرفت سے سزا یافتہ تک : ڈان نیوز اداریہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ یہ بلاشبہ ایک سنجیدہ یاد دہانی تھی کہ اقتدار کے عروج پر نظر آنے والے ناقابلِ گرفت افراد بھی ایک دن قانون کے کٹہرے میں لائے جا سکتے ہیں۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو جمعرات کے روز فوجی عدالت کی جانب سے سنائی گئی 14 سال قید کی سزا کئی حوالوں سے نہ صرف غیر معمولی بلکہ غیر متوقع بھی تھی۔
ڈان نیوز کے مطابق یہ ہائی پروفائل مقدمہ پاکستان کے سول اور عسکری تعلقات میں موجود گہرے تناؤ، فیض حمید کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مبینہ تعلقات، اور سیاسی انجینئرنگ و بدعنوانی میں ان کے کردار کو نمایاں کرتا ہے۔
ڈان نیوز مذید لکھتا ہے کہ اس مقدمے کی سماعت اگست 2024 میں شروع ہوئی اور 15 ماہ تک جاری رہی۔ طویل عرصے تک یہی تاثر قائم رہا کہ فیض حمید کا عہدہ انہیں تحفظ فراہم کرے گا مگر اس کے برعکس یہ فیصلہ تاریخ ساز ثابت ہوا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جو پرانے عسکری ڈھانچے میں آرمی چیف کے بعد دوسرا طاقتور ترین منصب سمجھا جاتا تھا کو فوجی عدالت نے کورٹ مارشل کر کے قید کی سزا سنائی۔
فیض حمید کی سزا کو پاک فوج کے اندرونی احتسابی نظام کے نتیجے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس مثال قائم کرنے کی کوشش قابلِ ستائش ہے۔ تاہم بہتر ہوتا کہ یہ عمل زیادہ شفاف انداز میں انجام دیا جاتا۔
ڈان نیوز کے اداریہ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ جاری سیاسی عدم استحکام کے تناظر میں ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیاخاص طور پر جب اسے 9 مئی 2023 کے ان ہنگاموں سے جوڑا گیا جو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پھوٹ پڑے تھے۔ خود اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ اس دن ہونے والے تشدد کو ہوا دینے میں فیض حمید کا کردار ہو سکتا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق تاہم یہ الزامات ان بہت سی غلطیوں میں سے محض ایک ہیں جو سابق آئی ایس آئی چیف سے منسوب کی جاتی ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں نتائج کی راہ ہموار کرنے میں فیض حمید نے کلیدی کردار ادا کیا اور بعد ازاں وہ اس حکومت کی سکیورٹی اور سیاسی حکمتِ عملی کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے قومی میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ایک منظم مہم کی خود نگرانی کی جس میں اس اخبار کو دباؤ میں لانے کی متعدد کوششیں بھی شامل تھیں۔
ڈان نیوز لکھتا ہے کہ اس کے علاوہ وہ تنازع بھی ہے جو بالآخر ان کے زوال کی بنیاد بنا۔ اسلام آباد کے قریب ایک رئیل اسٹیٹ منصوبے پر آئی ایس آئی کے اختیارات کے مبینہ ناجائز استعمال، چھاپے اور بھتہ خوری کے الزامات،جن میں کہا گیا کہ انہوں نے اس منصوبے میں حصہ مانگا۔ یہی معاملہ ان کے خلاف ابتدائی تحقیقات کا سبب بنا۔
ڈان نیوز کے مطابق جمعرات کے روز جب انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تو یہ سامنے آیا کہ انہیں چار الزامات میں مجرم قرار دیا گیا ہے، جن میں سرکاری رازوں کی خلاف ورزی، سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، اختیارات کا ناجائز استعمال اور دوسروں کو نقصان پہنچانا شامل ہیں۔ پریس ہینڈ آؤٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ مل کر سیاسی انتشار پھیلانے کے الزامات پر انہیں مزید سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسے ایک مثال (نظیر) سمجھا جائے یا ایک غیر معمولی استثنائی کیس؟ مسلح افواج کے احتسابی نظام کو سخت انصاف فراہم کرنے پر سراہا جانا چاہیے، اور امید کی جانی چاہیے کہ یہ نظام سب کے لیے یکساں اور مستقل طور پر لاگو کیا جائے گا۔





