
شیخ حسینہ کو سزائے موت کا فیصلہ،بھارت کا ردعمل اور آگے کیا ہوگا ؟
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ہندوستان ٹائمز کے مطابق فیصلے نے اُن خاندانوں میں خوشی اور سکون پیدا کیا ہے جن کے پیارے پولیس تشدد کے باعث مارے گئے تھے مگر شیخ حسینہ کے لیے غیر یقینی صورتحال بڑھ گئی ہے۔
سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ کو پیر کے روز ایک ٹربیونل نے 2024 کی طلبہ تحریک کے دوران کیے گئے مبینہ انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنائی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب حسینہ بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
شیخ حسینہ کے ساتھ سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کو بھی سزائے موت دی گئی ہے جبکہ سابق آئی جی پولیس چوہدری عبداللہ المأمون کو تفتیش میں تعاون اور جولائی میں اعترافِ جرم کرنے پر نسبتاً نرم سزا دیتے ہوئے پانچ سال قید سنائی گئی۔
جج غلام مرتضیٰ مزومدر نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ حسینہ ’’تین الزامات‘‘ میں قصور وار پائی گئیں
تشدد پر اکسانا
قتل کا حکم دینا
مظالم کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہ کرنا
عدالت نے ابتدا میں عمر قید کی سزا تجویز کی تھی مگر دیگر الزامات شامل ہونے کے بعد ٹربیونل نے اعلان کیا کہ وہ عوامی لیگ کی سربراہ کو سزائے موت دے گا۔
جج مزومدر نے کہا، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں صرف ایک ہی سزا دی جائے اور وہ ہے موت کی سزا۔ شیخ حسینہ اور ان کے دو ساتھیوں پر پانچ سنگین جرائم کے تحت مقدمہ چلایا گیا، جن میں شامل ہیں
ڈھاکا میں مظاہرین کے قتلِ عام کا منصوبہ بنانا
ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے شہری ہجوم پر فائرنگ کرنا
طالب علم کارکن ابو سعید کا قتل
ثبوت مٹانے کے لیے اشولیہ میں لاشوں کو نذرِ آتش کرنا
چنکھارپُل میں مظاہرین کا منظم قتل
ردعمل
شیخ حسینہ نے پیر کو اپنے خلاف الزامات اور فیصلے کو ’’جعلی‘‘ اور ’’سیاسی طور پر من گھڑت‘‘ قرار دیا اور ٹربیونل کو ’’کینگرو کورٹ‘‘ کہا۔ دوسری جانب یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت نے معزول وزیراعظم کے خلاف فیصلے کا خیرمقدم کیا۔
بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے بیان میں کہا گیابنگلہ دیش کی عدالتوں نے ایسی واضح بات کی ہے جو پورے ملک اور دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔ سزا اور سزا سنائے جانے کا عمل اس بنیادی اصول کی تصدیق کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، قانون سے بالاتر نہیں۔
فیصلے کے بعد بنگلہ دیش نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شیخ حسینہ اور سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کو واپس کرے۔ دونوں کے خلاف مقدمہ عدم موجودگی میں چلایا گیا، کیونکہ وہ اگست کی بغاوت کے فوراً بعد ڈھاکا سے فرار ہوگئے تھے۔
ملزموں کی حوالگی کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے بنگلہ دیش نے کہا کہ نئی دہلی دونوں رہنماؤں کو واپس کرنے کا پابند ہے۔
بھارت نے بھی اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس نے فیصلے کو ’’نوٹ‘‘ کیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا
ایک قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے، بھارت بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفاد امن، جمہوریت، شمولیت اور استحکام—کے لیے پرعزم ہے۔‘‘
اقوام متحدہ نے بھی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ ’’متاثرین کے لیے ایک اہم لمحہ‘‘ ہے مگر سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو سزائے موت ملنے پر افسوس ہے۔
یو این ہیومن رائٹس آفس کی ترجمان نے کہا کہ دفتر ’’مسلسل اس بات کی وکالت کرتا رہا ہے کہ تمام احتسابی کارروائیاں خصوصاً بین الاقوامی نوعیت کے جرائم کے مقدمات بلا شبہ عالمی معیارات کے مطابق شفاف اور منصفانہ ٹرائل پر مبنی ہونی چاہئیں۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہم سزائے موت کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، کیونکہ ہم ہر صورتِ حال میں موت کی سزا کی مخالفت کرتے ہیں۔
شیخ حسینہ کے لیے آگے کیا ؟
اب شیخ حسینہ کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ نئی دہلی بنگلہ دیش کی حوالگی کی درخواست پر کیا اقدام کرتی ہے۔
فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے بھارت سے حسینہ اور سابق وزیر داخلہ کی حوالگی کا مطالبہ دہرایا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی اور ملک کے لیے ان افراد کو پناہ دینا انسانیت کے خلاف جرائم کے مجرموں کی حمایت اور انصاف کی توہین کے مترادف ہوگا۔
دنیا بنگلہ دیش کے فیصلے اور ممکنہ حوالگی کے منتظر ہے جبکہ بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل کا پہلا قدم حسینہ کی جائیداد ضبط کرنا ہوگا، جو ریاست کے نام منتقل کر دی جائے گی۔
سابق وزیراعظم کے خلاف فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جاسکتی ہے مگر صرف اس صورت میں کہ حسینہ کو گرفتار کیا جائے یا وہ 30 دن کے اندر خود واپس بنگلہ دیش لوٹ آئیں۔ اگر وہ عدالت کے سمن کو نظرانداز کرتی ہیں تو انہیں ’’مفرور‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اگر حسینہ کو عدالت نے مفرور قرار دے دیا تو حکومت ان کی جائیداد ضبط کرنے، پاسپورٹ منسوخ کرنے، حوالگی کی کوششیں تیز کرنے اور انٹرپول ریڈ نوٹس جاری کرنے جیسے اقدامات کرسکتی ہے۔



