پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں،چین کا اظہار تشویش

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں،چین کا اظہار تشویش
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کے مطابق چین نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خطے میں اس کے شہریوں اور سرمایہ کاری کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ بیجنگ کی وزارتِ خارجہ نے پیر کے روز یہ بیان جاری کیا۔
دریں اثنا چین جو اپنے مغربی خطے میں افغانستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ سرحد رکھتا ہے نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لنجیان نے معمول کی پریس بریفنگ میں کہا چین پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے اور ترقی دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
لنجیان نے مزید کہا کہ بیجنگ کو امید ہے کہ کابل اور اسلام آباد پُرامن اور محتاط رہیں گے اور بات چیت و مشاورت کے ذریعے ایک دوسرے کے تحفظات کو مناسب طور پر حل کرتے رہیں گے تاکہ تنازعے کے پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔
اگست میں، چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے کابل میں پاکستانی اور افغان ہم منصبوں کے ساتھ ایک ملاقات میں شرکت کی تھی، جہاں تینوں ممالک نے مختلف سطحوں پر روابط کو مضبوط کرنے پر زور دیا۔
چند ہفتے قبل بیجنگ کی میزبانی میں ہونے والی ایک غیر رسمی سہ فریقی ملاقات میں، چین نے کہا تھا کہ کابل اور اسلام آباد نے اپنے سفارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان شدید سرحدی جھڑپیں ہفتے کی رات گئے شروع ہوئیں جو اتوار کی صبح تک جاری رہیں۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ان جھڑپوں میں 23 پاکستانی فوجی شہید ہوئے جبکہ پاکستان کے جوابی حملوں میں 200 طالبان اور ان سے منسلک عسکریت پسند مارے گئے۔
افغانستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے یہ حملہ جوابی کارروائی کے طور پر کیا اور اسلام آباد پر اس ہفتے کے آغاز میں افغان سرزمین پر فضائی حملے کرنے کا الزام عائد کیا۔
دوسری جانب پاکستان نے ان فضائی حملوں کی تصدیق نہیں کی لیکن اس کا کہنا ہے کہ کابل کو “اپنی سرزمین کو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ بننے سے روکنا چاہیے۔
اسلام آباد کی جانب سے بار بار کی جانے والی اپیلوں کے باوجود افغانستان اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کے استعمال کے لیے فراہم کر رہا ہے۔