
برطانوی امیگریشن اصلاحات سے اسکاٹ لینڈ میں پناہ گزین افلاس کا شکار ہو جائیں گے،اسکاٹش وزیر کا انتباہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) اسکاٹ لینڈ کی ایک وزیر نے خبردار کیا ہے کہ برطانوی حکومت کی مجوزہ امیگریشن اصلاحات اسکاٹ لینڈ میں بہت سے پناہ گزینوں کو افلاس (بے روزگاری) کی طرف دھکیل دیں گی۔
ہوم سیکرٹری شبانہ محمود پیر کے روز اپنی “اخلاقی مہم” کا خاکہ پیش کریں گی، جس کا مقصد برطانیہ کی پناہ گزین پالیسی میں بڑی تبدیلیاں لانا ہے۔انہوں نے کہا کہ غیر قانونی امیگریشن ملک کو ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے۔
گلاسگو جو برطانیہ کی کسی بھی اور مقامی اتھارٹی کے مقابلے میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو رہائش فراہم کرتا ہے، طویل عرصے سے امیگریشن کے مباحثے کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ہوم سیکرٹری کی جانب سے پیر کو اعلان کی جانے والی نئی تجاویز میں شامل ہے کہ پناہ ملنے کے بعد مستقل سکونت (تصفیہ) کے لیے درخواست دینے سے پہلے 20 سال کا انتظار کرنا ہوگا۔
اس وقت پناہ گزین پانچ سال بعد مستقل رہائش (رہنے کے لیے غیر معینہ مدت کی چھٹی) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ پناہ گزینوں کی حیثیت کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جائے گا، اور جن لوگوں کے آبائی ممالک کو مستقبل میں محفوظ قرار دیا گیا تو انہیں واپس جانے کا کہا جائے گا۔
ہوم سیکرٹری اس قانونی ذمہ داری کو ختم کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں جس کے تحت 2005 سے پناہ گزینوں کو رہائش اور ہفتہ وار الاؤنس کی فراہمی لازمی تھی۔ اس تبدیلی کے بعد رہائش اور مالی مدد یقینی نہیں رہے گی۔
اگرچہ پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی برطانوی حکومت کے دائرے میں آتی ہے،لیکن اسکاٹ لینڈ میں صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی خدمات کی فراہمی اسکاٹش حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ پناہ گزینوں کو کمیونٹیز میں بہتر طور پر ضم کیا جا سکے۔
اسکاٹ لینڈ کی سوشل جسٹس سیکرٹری شرلی این سمرول نے ہوم سیکرٹری سے مطالبہ کیا کہ وہ ہولیروڈ اور مقامی حکام کے ساتھ “تعاون” سے کام کریں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ گلاسگو میں پہلے ہی صورتحال “ناقابلِ برداشت” ہو چکی ہے، اور وہ “انتہائی فکر مند” ہیں کہ برطانوی حکومت کے منصوبے لوگوں کو افلاس کی طرف دھکیل دیں گے۔
سمرول نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہوم آفس پناہ سے متعلق اصلاحات پیش کرنے جا رہا ہے۔ مجھے شدید تشویش ہے کہ یہ تبدیلیاں مزید لوگوں، جن میں بچوں والے خاندان بھی شامل ہیں، کو غربت، گھربار کے بغیر رہنے اور افلاس کی طرف دھکیل دیں گی۔برطانوی حکومت کی بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر میں تشدد اور ظلم سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔
اسکاٹ لینڈ کی حکومت طویل عرصے سے ہوم آفس کے ساتھ تعاون پر زور دیتی آئی ہے تاکہ خاندانوں کو بے گھر ہونے سے بچایا جا سکے۔
ہوم آفس کے 30 جون 2025 تک کے اعداد و شمار کے مطابق گلاسگو سٹی کونسل 3,844 پناہ گزینوں کو رہائش دے رہی ہے جو برمنگھم (دوسرے نمبر پر) سے تقریباً % 40 زیادہ ہے۔
حالیہ مہینوں میں شہر میں پناہ گزینوں کی تعداد پر ایک سیاسی تنازع کھڑا ہو گیا ہے،جب اسکاٹش لیبر ایم پی جونی ریڈ نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اسکاٹش حکومت پر الزام لگایا کہ گلاسگو میں پناہ گزینوں کی تعداد برطانوی حکومت کے منصوبے کی حد سے % 400 زیادہ ہے۔
ایسٹ کلبرائیڈ کی ایم پی نے الزام لگایا کہ ایس این پی نے شہر کو پناہ گزینوں کے لیے ایک “پناہ گاہ” بنا دیا ہے، جس پر شہر کی کونسل لیڈر سوزن ایٹکن نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ لیبر ایم پی شاید “ریفارم پارٹی میں شامل ہونے کی تیاری کر رہی ہیں”۔
سمرول نے مزید کہا
یہ ضروری ہے کہ ہوم آفس اسکاٹش مقامی حکام اور تھرڈ سیکٹر کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ کسی بھی منصوبے میں اسکاٹ لینڈ کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے اور گلاسگو جیسے شہروں پر مالی دباؤ مزید نہ بڑھے، جہاں صورتحال پہلے ہی ناقابلِ برداشت ہے۔
اسکاٹ لینڈ پناہ گزینوں اور پناہ کے طلب گاروں کو خوش آمدید کہتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ ہوم آفس ان لوگوں کو مکمل مدد فراہم کرے جو اپنے لیے نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔
ہوم سیکرٹری نے بی بی سی کے پروگرام سنڈے وِد لارا کوئنسبرگ” میں کہا کہ امیگریشن برطانیہ کو “چیر پھاڑ” رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا مجھے معلوم ہے کہ غیر قانونی امیگریشن ہمارے ملک میں شدید تقسیم کا باعث بن رہی ہے، اور میرا یقین ہے کہ اگر ہم نے اقدام نہ کیا تو ہم پناہ کا کوئی نظام برقرار رکھنے کی عوامی حمایت کھو دیں گے۔
یہ منصوبے ڈنمارک کے نظام سے ماخوذ ہیں، جن کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کے لیے برطانیہ کو کم پرکشش بنانا ہے۔اسکاٹش گرین پارٹی کی ایم ایس پی میگی چیپمین نے شبانہ محمود کے منصوبوں کو “ایک بنیادی انسانی حق پر گھناونا اور قابلِ نفرت حملہ” قرار دیا۔





