
بجلی کے صارفین پر 21 کروڑ 50 لاکھ روپے کا اضافی بوجھ، ریگولیٹری ناکامی بے نقاب
ڈان نیوز اپنے ایڈیٹوریل میں لکھتا ہے کہ بے خبر بجلی کے صارفین کو ایک بار پھر اضافی رقم — 21 کروڑ 50 لاکھ روپے — ادا کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ اضافہ بجلی پیدا کرنے کے اخراجات میں کسی ناگزیر اضافے کی وجہ سے نہیں ہوا، جیسے عالمی ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، مقامی کرنسی کی قدر میں کمی یا صلاحیتی ادائیگیاں وغیرہ، بلکہ یہ ریگولیٹری ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق عام طور پر ملک میں بجلی مہنگی ہونے کی ذمہ داری ان عوامل پر ڈال دی جاتی ہے، مگر بجلی کے شعبے کے نگران ادارے — نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی گارنٹیڈ (سی پی پی اے-جی) — کی یہ ناکامی کہ وہ صارفین کے مالی و قانونی حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے مؤثر ضابطے نافذ نہیں کر پائے ہمیشہ عوامی توجہ سے بچ جاتی ہے۔
تازہ ترین معاملہ اس وقت پیش آیا جب ایک بین الاقوامی کوئلے کے سپلائر نے گزشتہ سال ساہیوال پاور پلانٹ کے ساتھ اپنے طویل مدتی معاہدے کو فورس میجر کی شق کے تحت منسوخ کر دیا، جس کے باعث پلانٹ کو مہنگے داموں ایندھن خریدنا پڑا۔
اس کے بجائے کہ نیپرا اور سی پی پی اے- جی معاہدہ توڑنے والے سپلائر کو سزا دیتے اور اس کے پرفارمنس گارنٹی ضبط کر کے متبادل ایندھن کی اضافی لاگت وصول کرتے انہوں نے یہ مالی بوجھ صارفین پر ڈال دیا اور ٹیرف میں اضافہ کر دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر سی پی پی اے-جی نے سپلائر کو نہ تو بلیک لسٹ کیا اور نہ ہی معاہدے کی خلاف ورزی پر کسی قسم کی پابندی لگائی بلکہ اسے اسی پلانٹ کے لیے جون میں ہونے والے ایک اسپات ٹینڈر میں حصہ لینے اور زیادہ نرخوں پر بولی جیتنے کی اجازت دے دی۔
ڈان نیوز اپنے ایڈیٹوریل میں مذید لکھتا ہے کہ یہ حقیقت کہ دونوں ریگولیٹری ادارے معاہدہ توڑنے والے سپلائر کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے اور الٹا اس کی مالی طور پر مدد کر دی، اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ بجلی کے شعبے کا ریگولیٹری ڈھانچہ کس حد تک کمزور اور سمجھوتہ زدہ ہو چکا ہے۔ یہ ناکامی خاص طور پر اس لیے ناقابلِ معافی ہے کہ صنعت کے اعداد و شمار سپلائر کے جواز کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔
کمپنی نے ترسیلی مسئلے اور بھارت کے ساتھ تنازع کو ساہیوال پلانٹ کے لیے کوئلے کی ترسیل روکنے کی وجہ بتایا تھا مگر ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ دیگر سپلائرز نے اسی بندرگاہ کے ذریعے اپنی ترسیلات جاری رکھیں اور دیگر تاجروں کی جانب سے پاکستان کو کوئلے کی فراہمی میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ اصل محرک بظاہر محض مالی مفاد تھا کیونکہ سپلائر کو بعد میں احساس ہوا کہ طے شدہ رعایتی نرخ اس کے لیے نقصان دہ ہیں لہٰذا اس نے معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا۔
بدقسمتی سے یہ پہلا موقع نہیں جب بجلی کے صارفین کو ریگولیٹری نظام کی بدعنوانیوں اور ناکامیوں کا بوجھ مہنگے بلوں کی شکل میں برداشت کرنا پڑا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کسی کو حیران بھی نہیں کرتا۔
یہ حالیہ واقعہ صرف ایک پرانے اور جڑ پکڑ چکے رجحان کی تصدیق کرتا ہے جہاں ریگولیٹری ناکامی ایک ادارہ جاتی روایت بن چکی ہے۔ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں نگران ادارے اکثر نادانستہ یا دانستہ طور پر صارفین کے بجائے نجی مفادات اور معاہدہ توڑنے والوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب نگران ادارے نجی کمپنیوں کو معاہدہ توڑنے کی اجازت بغیر کسی انجام کے دے دیتے ہیں تو احتساب ایک اختیار بن جاتا ہے، نقصان اجتماعی ہو جاتا ہے اور مارکیٹ کی ناکامی معمول بن جاتی ہے۔