
چناب کے پانی کے بہاؤ میں اچانک تبدیلی پر پاکستان نے بھارت سے وضاحت طلب کر لی: دفترِ خارجہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان نے جمعرات کے روز دریائے چناب میں پانی کے بہاؤ میں اچانک تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے پر بھارت کو خط لکھ کر وضاحت طلب کی گئی ہے۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے دریائے چناب کے بہاؤ میں ’’اچانک تبدیلی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ گزشتہ ایک ہفتے سے خبروں میں زیرِ بحث ہے۔
متعدد میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ بھارت نے دریائے چناب میں پانی چھوڑا ہے۔
ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان ان تبدیلیوں کو انتہائی تشویش اور سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔ یہ بھارت کی جانب سے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے دریائے چناب میں یکطرفہ طور پر پانی چھوڑنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر نے بھارت کے اپنے ہم منصب کو خط لکھ کر انڈس واٹر ٹریٹی میں طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق وضاحت طلب کی ہے۔
اندرابی کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے دریا کے بہاؤ میں کسی بھی قسم کی ہیرا پھیری، خاص طور پر ہمارے زرعی سائیکل کے ایک نہایت حساس مرحلے پر ہمارے شہریوں کی زندگی اور روزگار کے ساتھ ساتھ غذائی اور معاشی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔
انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دے، دریاؤں کے بہاؤ میں یکطرفہ مداخلت سے باز رہے اور انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر پورا کرے۔
ترجمان نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی ایک “پابند بین الاقوامی معاہدہ” ہے جو خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔
1960 کے انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت مغرب کی جانب بہنے والے تین دریا سندھ، چناب اور جہلم — پاکستان کو دیے گئے تھے جبکہ بھارت کو مشرق کی جانب بہنے والے تین دریا ملے تھے۔
اندرابی نے کہا کہ معاہدے کی خلاف ورزی بین الاقوامی معاہدوں کے تقدس اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کو نقصان پہنچاتی ہے اور یہ علاقائی امن، اچھے ہمسائیگی کے اصولوں اور ریاستوں کے مابین تعلقات کے ضوابط کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو بھارت کی جانب سے دوطرفہ معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے اور بین الاقوامی قانون، تسلیم شدہ اصولوں اور اپنی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔
ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات اور مسائل کے پرامن حل کے لیے پُرعزم ہے، لیکن وہ اپنے عوام کے وجود سے جڑے آبی حقوق پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
اپریل میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل رکھنے کا اعلان کیا تھا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ نئی دہلی نے بغیر کسی ثبوت کے اس حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا تھا۔ پاکستان نے معاہدے کے تحت اپنے حصے کے پانی کو معطل کرنے کی کسی بھی کوشش کو “اعلانِ جنگ” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق موجود نہیں۔
بعد ازاں پاکستان نے 1969 کے ویانا کنونشن برائے قانونِ معاہدات کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کرنے پر بھی غور کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جون میں، مستقل ثالثی عدالت (پرمننٹ کورٹ آف آربیٹریشن) نے اختیار سے متعلق ایک ضمنی فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ بھارت انڈس واٹر ٹریٹی کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔
یہ ضمنی فیصلہ 2023 میں پاکستان کی جانب سے دائر کیے گئے اس کیس میں دیا گیا تھا جو ان دریاؤں پر بھارتی ہائیڈرو پاور منصوبوں کے ڈیزائن سے متعلق تھا جو معاہدے کے تحت پاکستان کو دیے گئے ہیں۔
بھارتی خاتون کا حجاب اتارنے کا واقعہ
پریس بریفنگ کے دوران دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اس ہفتے بھارتی ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک خاتون ڈاکٹر کا حجاب اتارنے کے واقعے پر بھی بات کی، جس پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد اتر پردیش کے ایک وزیر کی جانب سے اس اقدام کا دفاع کیا گیا، تاہم بعد میں وہ اپنے بیان سے پیچھے ہٹ گئے۔
اندرابی نے کہا ہے کہ ایک سینئر سیاسی رہنما کی جانب سے مسلمان خاتون کا حجاب زبردستی اتارنا اور بعد ازاں اس عمل کا عوامی مذاق اڑایا جانا نہایت تشویشناک ہے اور سخت مذمت کا تقاضا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات بھارت میں مسلمان خواتین کی تذلیل کو معمول بنانے کا خطرہ رکھتے ہیں اور یہ طرزِ عمل بھارت کی مذہبی اقلیتوں،بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ عوامی بے احترامی کو ظاہر کرتا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ رویہ ہندوتوا سے متاثر سیاست کے ایک وسیع اور تشویشناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جس میں مذہبی عدم برداشت اور اسلاموفوبیا میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام ذمہ دار حلقے اور بھارتی حکومت اس واقعے کی سنگینی کو تسلیم کریں اور اقلیتی حقوق کے تحفظ، مذہبی آزادی کے احترام اور انسانی وقار کی پاسداری کے عزم کا اعادہ کریں۔




