
ٹرمپ کا غزہ پلان نافذ کرنا مشکل، مسلم ممالک پسپائی اختیار کرنے لگے،ایڈ یٹوریل
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز اپنے ایڈ یٹوریل میں لکھتا ہے کہ شرم الشیخ غزہ سمٹ — جو اکتوبر میں ہوا —مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے دعووں سے فضا گونج رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت سے حلقوں کی جانب سے ایک ’دور اندیش امن ساز‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، حالانکہ ناقدین کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا غزہ پلان خامیوں کا شکار ہے اور واضح طور پر اسرائیل کے حق میں جھکا ہوا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق آج وہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ ٹرمپ کے اس منصوبے پر عملدرآمد جسے پچھلے ماہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور بھی کیا تھا — خاصا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ خصوصاً وہ عرب اور مسلم ممالک جنہوں نے اس منصوبے کی حمایت کی تھی، نام نہاد ’’بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس‘‘ کے لیے فوج بھیجنے کے معاملے پر پس و پیش کا شکار ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جو اب اس امکان کے بعد اپنے فیصلے پر نظرثانی کر رہے ہیں کہ انہیں حماس کو زبردستی ہتھیاروں سے محروم کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے ہفتے کو ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے اس معاملے پر تحفظات بالکل واضح کر دیے جب انہوں نے کہا کہ حماس کوغیر مسلح کرنا ہمارا کام نہیں۔ دورے پر آئے ہوئے مصر کے وزیرِ خارجہ نے بھی غزہ کے حوالے سے کہا کہ ہماری ذمہ داری جنگ بندی کی نگرانی تک محدود ہونی چاہیے۔
ڈان نیوز مزید لکھتا ہے کہ ان سرکاری بیانات کے ساتھ ساتھ واشنگٹن پوسٹ کی ایک حالیہ رپورٹ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ کئی مسلم ممالک غزہ مشن پر خصوصاً حماس کے ساتھ ممکنہ تصادم کے حوالے سے، اپنے فیصلے پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انڈونیشیا اور آذربائیجان — دو ممالک جو فوج بھیج سکتے تھے — اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ درحقیقت، اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ ان کے انڈونیشی ہم منصب نے حماس کو غیر مسلح کرنے پر ’’تحفظات کا اظہار‘‘ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غزہ مشن کے حوالے سے واضح ٹرمز آف ریفرنس درکار ہیں۔
ڈان نیوز مزید لکھتا ہے کہ یہ سب واقعات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسلم ممالک — ٹرمپ پلان کی حمایت کے جوش میں — اس کی باریکیوں کو پڑھنے میں ناکام رہے۔ غزہ کو غیر مسلح کرنا اس منصوبے کا آغاز ہی سے حصہ تھا۔ تاہم، مسلم ممالک کو شاید اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ اگر وہ حماس یا دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں سے زبردستی نمٹیں گے، تو یہ گویا اسرائیل کی مدد کے مترادف ہوگا۔ یہ بات سب سے زیادہ pro–US مسلم ممالک کے لیے بھی اندرونی طور پر قابلِ قبول نہیں ہو سکتی، کیونکہ ان کی حکومتیں یوں تل ابیب کی غزہ پر خونی یلغار میں شریک نظر آئیں گی۔
ڈان نیوز کے مطابق جبکہ بہت سے مبصرین کے مطابق غزہ میں نسل کشی ابھی بھی — چاہے کم رفتار سے جاری ہے کوئی مسلم ملک بھی اس امریکی-اسرائیلی اقدام کا کھلم کھلا حصہ بننے کا خواہاں نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم افواج کو نہ تو حماس یا دیگر فلسطینی گروہوں کو غیر مسلح کرنے کا حصہ بننا چاہیے، نہ ہی غزہ میں اسرائیلی اقتدار کو نافذ کرنے کا۔
ڈان نیوز کے مطابق پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کو ٹرمپ کے اس منصوبے کی حمایت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ کوئی بھی ایسا منصوبہ جو اسرائیلی مفادات کو ترجیح دے، فلسطینی ریاست کے قیام اور صہیونی قبضے کے خاتمے کے حوالے سے کوئی ٹھوس منصوبہ نہ رکھتا ہو، اور غزہ میں اسرائیلی نسل کشی پر احتساب کی بات نہ کرتا ہو — عرب اور مسلم دنیا کی حمایت کا مستحق نہیں۔



