
اسلامیانِ پاکستان جو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ کبھی دل سے قبول نہیں کر سکے
کراچی کے ساحلوں سے لے کر کوہِ سلیمان کی چوٹیوں تک جہاں جہاں افغانوں کا پسینہ گرا، وہاں وہاں پاکستانیوں نے اپنا لہو پیش کیا۔
اب ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ۔۔۔۔۔۔‘سب سے پہلے افغانستان’۔۔۔۔۔۔ کا عملی نمونہ قبول کر لیں؟ یہ خیالِ خام ہے۔
ملا عمر کا بیٹا ہونا حق پر ہونے کی دلیل نہیں،
اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہونا ناحق ہونے کی علامت بھی نہیں۔
مشرف کا امریکیوں کا آلہ کار بننا بطورِ قوم پاکستانی شعور نے ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا تھا۔
افغانوں کے خلاف مورچہ سنبھالنے کو قومی و ملی ذلت سمجھا گیا
اور اس کا ہر دور، ہر مقام اور ہر سطح پر رد کیا گیا۔
بحیرۂ عرب کے پانیوں سے لے کر ہندوکش کی چوٹیوں تک
انٹرنیٹ کی چوپالوں سے لے کر اخبارات کے سرِورق تک
“افغان باقی، کہسار باقی” جگمگاتا رہا۔
دشتِ لیلیٰ سے اسلام آباد کی گلیوں تک،
کراچی کی بندرگاہوں سے جی ایچ کیو کے در و دیوار تک
اور پھر کابل، قندھار، کوئٹہ سے لے کر گوانتانامو بے تک
کون سی جگہ تھی جہاں پاکستانیوں نے افغانوں کو اکیلا چھوڑا ؟
! مشرف کے گناہوں کے دھبے دھونے کو پاکستانیوں نے کہاں کہاں کی خاک نہیں چھانی
پنجابی، سندھی، بلوچ، سرائیکی اور کشمیری
سب نے ہر لمحہ افغانوں پر برستے بم اپنے دل پر محسوس کیے۔
کبھی ماضی میں اگر ریاستِ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ زیادتی کی تھی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب “ہم بھیڑ کے بچے کی طرح خود کو بھیڑیے کا شکار ہونے کے لیے پیش کرتے رہیں، صرف اس لیے کہ کبھی اوپر سے بہنے والا پانی ہم نے گدلا کیا تھا”۔
پاکستان اور افغانستان کی کشیدگی ہر ذی شعور مسلمان کے لیے تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔
لیکن اس کے تمام تر ملبے کو ریاستِ پاکستان پر ڈال دینا ایک صدمے سے دوچار دماغی ردعمل تو ہو سکتا ہے
مگر منطقی تجزیے اور تنقیدی سوچ کا نتیجہ نہیں۔
افغان ہمارے بھائی ہیں
اور ان کے ساتھ لڑائی ہمیں ہرگز قبول نہیں۔
اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رہنی چاہیے۔
لیکن کسی غلط کاری کو صرف اس لیے قبول کر لینا کہ غلط کار داڑھی اور پگڑی والا ہے،
یا کبھی ماضی میں اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی
یہ بات بھی ہمارا اجتماعی شعور برداشت نہیں کرے گا۔
بشکریہ عمران اسلم





