
نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی کی کوشش اس ہفتے پرتشدد احتجاج پر ختم ہوئی، جس میں وزیرِاعظم کو برطرف کر دیا گیا، پارلیمنٹ کو آگ لگا دی گئی اور دارالحکومت کی سڑکوں پر فوجی تعینات ہو گئے۔ اب وہی ٹیکنالوجی، جس پر حکومت پابندی لگانا چاہتی تھی، ملک کے نئے رہنما کے انتخاب میں مدد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد شہری باقاعدگی سے ایک ورچوئل چیٹ روم میں اکٹھے ہو کر ملک کے مستقبل پر بحث کر رہے ہیں۔
پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 30 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جب نوجوانوں کی قیادت میں ہونے والے احتجاج دولت کی ناہمواری، بدعنوانی اور سوشل میڈیا پر پابندی کے منصوبوں کے خلاف غصے کے طوفان میں تبدیل ہو گئے۔
منگل کو حکومت کے خاتمے کے بعد فوج نے کٹھمنڈو میں کرفیو نافذ کر دیا اور بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی۔ سیاسی خلا اور واضح قیادت کی غیر موجودگی میں نیپالی شہریوں نے ڈسکارڈ کا رخ کیا، جو ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کے درمیان مقبول ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے، اور اب وہاں ایک ڈیجیٹل قومی کنونشن منعقد ہو رہا ہے۔
“نیپال کی پارلیمنٹ اس وقت ڈسکارڈ ہے،” کٹھمنڈو کے 23 سالہ کانٹینٹ کریئیٹر سد گھمیری نے کہا۔ ان کے مطابق یہ سائٹ اب قومی سیاسی فیصلوں کا مرکز بن گئی ہے۔
ڈسکارڈ چینل پر آواز، ویڈیو اور ٹیکسٹ چیٹ کے امتزاج میں ہونے والی گفتگو اتنی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ اسے قومی ٹیلی ویژن پر زیر بحث لایا جا رہا ہے اور نیوز ویب سائٹس پر براہِ راست نشر کیا جا رہا ہے۔
یہ چینل ہامی نیپال نامی ایک سول سوسائٹی گروپ کے منتظمین نے بنایا ہے اور زیادہ تر شرکاء وہی نوجوان کارکن ہیں جنہوں نے حالیہ احتجاج کی قیادت کی۔ مگر منگل کو وزیرِاعظم کے اچانک استعفے کے بعد فی الحال طاقت فوج کے پاس ہے۔ فوجی سربراہان نے چینل کے منتظمین سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ وہ عبوری رہنما کے لیے کوئی ممکنہ امیدوار تجویز کریں۔
ڈسکارڈ پر جن ناموں پر بات ہوئی، ان میں ساگر دھاکل (ایک سابقہ سیاسی امیدوار) اور کل مان گھسنگ (نیپال کی بجلی اتھارٹی کے سابق سربراہ) شامل تھے۔ دونوں نے بدھ کو کئی گھنٹے تک چیٹ روم میں ہونے والی میٹنگ میں شرکت کی جیسا کہ اس کال سے واقف تین افراد نے بتایا۔
بدھ کی شام تک طویل بحثوں اور کئی پولز کے بعد ڈسکارڈ گروپ نے نیپال کی سابق چیف جسٹس سشیلا کرکی کے نام پر اتفاق کیا اور ان کا نام فوج کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کے لیے تجویز کر دیا۔
جمعرات کو مس کرکی نے نیپال کے صدر رام چندر پاؤڈل اور فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگدیال سے ملاقات کی، جیسا کہ ڈسکارڈ چینل کے منتظمین نے بتایا۔ کرکی کی وکیل نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
“مقصد ایک قسم کے چھوٹے انتخابات کی نقالی کرنا تھا،” شاشوت لمیچھانے نے کہا، جو چینل کے موڈریٹر ہیں اور فوج کے ساتھ ملاقاتوں میں گروپ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ لمیچھانے نے چند ماہ پہلے ہی ہائی اسکول سے گریجویشن کیا ہے۔
ان کے بقول ڈسکارڈ گروپ پورے ملک کی نمائندگی نہیں کرتا، بلکہ اس کا مقصد صرف ایک عبوری رہنما تجویز کرنا ہے جو عام انتخابات کرا سکے۔
صرف چار دن میں یہ سرور 1 لاکھ 45 ہزار سے زائد ممبرز تک پہنچ چکا ہے۔ اور صارفین تیزی سے جمہوریت کی حدود اور اس پلیٹ فارم کی کمزوریوں کو سمجھنے لگے ہیں، جہاں ہر کسی کو بولنے کا حق حاصل ہے۔
یہ سب بہت تیزی سے ہوا،” 23 سالہ سمڈیپ یادو نے کہا، جو کٹھمنڈو کے حالیہ کالج گریجویٹ ہیں اور بدھ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ ان کا کہنا تھا: “ہمارے پاس کوئی واضح رہنما نہیں ہے جو ہماری نمائندگی کرے۔ انہوں نے اس بحث کو بے ربط اور بعض اوقات ایک “بے ترتیبی سوشل میڈیا کال جیسا قرار دیا۔
چینل کی چیٹ ہسٹری بھی اسی بدنظمی اور اندرونی اختلافات کی عکاسی کرتی ہے۔ کوئی بھی اس چینل میں شامل ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے ٹرولز یا نیپال کے باہر کے لوگ بھی گھس آتے ہیں۔ موڈریٹرز کو تشدد پر اکسانے والی آوازوں کو دبانا پڑا ہے۔ اور چونکہ ہر کوئی بول سکتا ہے، اس لیے گفتگو اکثر نامعلوم آوازوں کے ایک ہنگامہ خیز شور میں بدل جاتی ہے۔
منتظمین کو آزادانہ بحث اور فوج سے ملاقات کے لیے جلدی کسی نمائندے کے انتخاب کے درمیان توازن قائم رکھنا پڑا۔ ڈسکارڈ پر موجود یہ جین زی کارکن دوسرے پلیٹ فارمز پر اثر و رسوخ کے خواہش مند گروپوں سے بھی مقابلہ کر رہے ہیں۔
بدھ کو ایک موقع پر موڈریٹرز نے کہا
“براہ کرم فوراً نمائندہ منتخب کریں — ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔”
اس کے بعد مس کرکی پر اتفاق کیا گیا۔
اسی دوران کچھ سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور سابق شاہی نظام کے حامی بھی فوج کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔
کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ماہر اسٹیون فیلڈسٹین نے کہا کہ اس پیمانے پر ڈسکارڈ کا استعمال “انتہائی غیرمعمولی” ہے، خاص طور پر اگر نیپال کے سیاسی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے کیا جا رہا ہو۔
مگر ان کے مطابق نیپال کا یہ راستہ عالمی رجحان کا حصہ ہے۔ سوشل میڈیا “پہلے مرحلے” میں تو بے حد مؤثر ہے، یعنی لوگوں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر لانے میں، لیکن طویل المدتی سیاسی ڈھانچے بنانے میں کم کامیاب رہا ہے۔
لمیچھانے، یہ حالیہ ہائی اسکول گریجویٹ، توقع نہیں کر رہے تھے کہ ان کا شروع کیا ہوا ڈسکارڈ سرور ملک کے قومی مکالمے کا اتنا مرکزی حصہ بن جائے گا۔
ان کا کہنا تھا“آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈسکارڈ سرور فوج کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، کیونکہ جو کچھ بھی کہا جاتا ہے، وہ بالآخر فوجی ہیڈکوارٹر تک پہنچ جاتا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو زمینی حقیقت میں موجود ہیں۔”
(بشکریہ ( پرناؤ بسکرنیویارک ٹائمز