
Terrorist groups in Afghanistan pose threat to regional peace: Pakistan
پاکستان نے گزشتہ روز کہا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں اور یہ ایک ایسا مشترکہ چیلنج ہے جس کا مقابلہ اجتماعی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ شفقات علی خان نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا:
“فتنہ الخوارج جیسے گروہ پورے خطے کے امن اور استحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان کے منفی اثرات کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات کیے جائیں۔”
جب ان سے پاکستان کی سرحد پار کارروائیوں اور طالبان کے قائم مقام وزیر دفاع ملا یعقوب کے بیانات کے متعلق سوال کیا گیا کہ ملا یعقوب نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان اپنی سیکیورٹی ناکامیوں کا الزام افغانستان پر ڈال رہا ہے۔
تو انہوں نے طالبان وزیر دفاع کے اس مؤقف کو “طنزیہ” قرار دیتے ہوئے کہا:
“اس طرح کے بیانات اس معاملے کی سنگینی کو کم نہیں کر سکتے۔ اصل مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے اور اسے محض الفاظ سے دبایا نہیں جا سکتا۔”
شفقات علی خان نے کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بارڈر ایریاز میں “ہدفی آپریشنز” کرتے ہیں تاکہ دہشت گردی جیسے خطرات سے عوام کو محفوظ بنایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کارروائیاں قابلِ اعتماد اور قابلِ عمل انٹیلی جنس پر مبنی ہوتی ہیں اور نہایت احتیاط سے انجام دی جاتی ہیں۔ ترجمان نے زور دیا کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور مکالمے و تعاون کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان کا طویل عرصے سے یہ مؤقف ہے کہ اسے افغانستان سے کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں، بشمول ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، سے خطرہ لاحق ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی رپورٹس میں بھی افغانستان میں ان گروہوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جنہیں پاکستان کے مطابق سرحد پار حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم افغان طالبان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
ملا یعقوب نے حالیہ انٹرویو میں کہا:
“اگر یہ لوگ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو کر اندر تک چلے جاتے ہیں تو وہاں کیوں نہیں روکے جاتے؟ پاکستان اپنی ناکامی کا الزام افغانستان پر لگاتا ہے، جو درست نہیں ہے۔”
افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا فیصلہ برقرار
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں حالیہ تباہ کن زلزلے کے بعد بھی افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے فیصلے پر بدستور قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی افراد کی ملک بدری جاری رہے گی اور جرمنی سمیت دیگر ممالک کو چاہیے کہ وہ افغان مہاجرین کی آبادکاری کے وعدوں کو سنجیدگی سے لیں۔
انہوں نے کہا:
“یہ ایک عالمی اصول ہے اور یہ ہمارا خودمختار فیصلہ ہے کہ کس کو ملک میں آنے یا رہنے کی اجازت دینی ہے۔ جو بھی غیر قانونی ہے، ہم اسے واپس بھیجیں گے۔”
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے پاکستان سے اپیل کی تھی کہ انسانی بحران کے پیشِ نظر اس منصوبے کو مؤخر کیا جائے۔ تاہم ترجمان نے واضح کیا کہ یکم ستمبر کی ڈیڈلائن میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان شہریوں کو مختلف کیٹیگریز میں بڑی تعداد میں ویزے جاری کرتا ہے، جن میں وزٹ، کاروبار، تعلیم، علاج اور خاندانی ویزے شامل ہیں۔
ایس سی او سربراہی اجلاس پر امریکی تنقید
ترجمان دفترِ خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس پر تنقید پر براہِ راست تبصرے سے گریز کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ تیانجن میں ہونے والا حالیہ اجلاس کثیرالجہتی تعاون، امن، سلامتی اور مشترکہ خوشحالی کے فروغ کے لیے نہایت کامیاب رہا۔
ان کے مطابق:
“یہ اجلاس کسی ملک کے خلاف نہیں تھا بلکہ اس کا بنیادی پیغام مشترکہ ترقی اور استحکام کا فروغ تھا۔”