
The world's leading experts say that Israel is committing genocide in Gaza Photo- The NewYork Times
دنیا کے ممتاز ماہرینِ نسل کشی نے متفقہ طور پر اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیاں نسل کشی کے مترادف ہیں۔ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز (IAGS)، جو عالمی سطح پر نسل کشی کے مطالعات کی سب سے بڑی تنظیم سمجھی جاتی ہے اور جس میں ہولوکاسٹ سمیت مختلف تاریخی نسل کشیوں پر تحقیق کرنے والے سینکڑوں ماہرین شامل ہیں، نے حال ہی میں ایک تین صفحات پر مشتمل قرارداد منظور کی ہے، جس کے تحت اسرائیل کے اقدامات اقوامِ متحدہ کے “کنونشن برائے انسداد نسل کشی” کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔
تنظیم کے 500 اراکین میں سے 28 فیصد نے اس قرارداد میں حصہ لیا، اور ان میں سے 86 فیصد نے اس کی حمایت کی۔ قرارداد میں تفصیل سے بتایا گیا کہ کس طرح غزہ میں گزشتہ 22 ماہ سے جاری جنگ نے زندگی کے تمام شعبوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ نظام صحت کی تباہی، تعلیمی اداروں پر حملے، اور امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ جیسے اقدامات کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ قرار دیا گیا، جس کا مقصد غزہ اور اس کی عوام کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے۔
یونیسیف کی رپورٹس کے مطابق ، جنگ میں اب تک 50 ہزار سے زائد بچے مارے جا چکے ہیں یا زخمی ہوچکے ہیں، جو فلسطینی معاشرے کی بقا اور آئندہ نسل کی تشکیل کے لیے ایک المیہ ہے۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات، جن میں فلسطینیوں کو غیر انسانی القابات سے پکارا گیا اور غزہ کو “جہنم” میں بدلنے کی دھمکیاں دی گئیں، بھی اس موقف کو تقویت دیتے ہیں کہ غزہ میں جاری جارحیت ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔
دوسری جانب اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے “حماس کا پروپیگنڈہ” اور “کمزور تحقیق” قرار دیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ کارروائیاں محض دفاعی نوعیت کی ہیں۔
تاہم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز کے ماہرین کا مؤقف ہے کہ اگرچہ 7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے میں اسرائیل کے 1,200 افراد کی ہلاکت اور 251 افراد کے اغوا جیسے جرائم سنگین تھے، لیکن اسرائیل کا ردِعمل صرف حماس تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے غزہ کی پوری آبادی کو نشانہ بنایا ہے، جو واضح طور پر نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔
غزہ کی حماس کے زیرانتظام وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 63,557 افراد ہلاک اور 160,660 زخمی ہو چکے ہیں اور ان اعداد و شمار کو اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے زیادہ تر درست مانتے ہیں، تاہم ان میں عام شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان فرق نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ ،عالمی عدالتِ انصاف میں بھی ایک اہم مقدمہ زیرِ سماعت ہے، جو جنوبی افریقہ نے دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی ہے۔تاہم، عدالت نے حتمی فیصلہ تو ابھی نہیں سنایا، لیکن اسرائیل کو جنوری 2026 تک اپنا دفاع پیش کرنے کی مہلت دے دی ہے۔
دریں اثنا، اقوامِ متحدہ کے تعاون سے کام کرنے والے ادارے IPC نے تصدیق کی ہے کہ غزہ کے کئی علاقوں میں قحط کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے، جس کا براہِ راست تعلق اسرائیل کی جانب سے خوراک اور طبی امداد کی ترسیل میں رکاوٹوں سے ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت قابض طاقت ہونے کے ناتے اسرائیل پر عام شہریوں کے تحفظ اور ان کی بقا کو یقینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔