میرپورخاص میں ڈاکٹر شاہنواز کنبھر نامی شخص پر17 ستمبر کو توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا لیکن ان کی گرفتاری عمل میں نہ آنے کی بنا پر 18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ایک مبینہ پولیس مقابلے ان کی ہلاکت کی خبر سامنے ۔
لیکن مسئلہ اس وقت زیادہ شدت اختیار کر گیا جب ان کے اہلخانہ نے ان کی تدفین کی کوشش کی لیکن ایک مشتعل گروہ نے ان کی لاش کو آگ لگا دی ۔ اس واقعے نے ملکی سطح پر عوامی غم و غصے کو ہوا دی ، سول سوسائٹی کے گروپوں نے قتل کی مذمت کرتے ہوئے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ نے بھی عدالتی انکوائری اور اس کیس میں ملوث افراد کے احتساب کا مطالبہ کیا۔
سندھ کے وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے خطے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اس واقعے کو ماورائے عدالت قتل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر ڈاکٹر کنبھار نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے تھا۔
کارکنوں نے پولیس کی زیرقیادت تحقیقات کو مسترد کر دیا، اور مطالبہ کیا کہ ملوث پولیس افسران کے خلاف الزامات عائد کیے جائیں۔ انہوں نے بین الاقوامی اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ ان افسران کے خلاف کارروائی کریں۔
اس شدید عوامی ردِعمل کے بعد اس واقعے میں ملوث اعلیٰ حکام سمیت متعدد پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا۔ سندھ پولیس کے سربراہ نے تحقیقات کا حکم دیا اور ضلع کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کو ہٹا دیا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس، غلام نبی میمن نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور میرپورخاص میں آپریشنز کی نگرانی کے لیے نئی قیادت کا تقرر کیا۔ ڈی آئی جی پرویز چانڈیو کی سربراہی میں قائم کمیٹی کے پاس انکاؤنٹر کے حالات اور 19 ستمبر کو دائر کی گئی دو پولیس رپورٹس کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے سات دن ہیں۔
ڈاکٹر کنبھر کےاہل خانہ کا پولیس پر الزام
دریں اثنا، ڈاکٹر کنبھر کی والدہ نے ملوث پولیس اہلکاروں کو تحفظ اور مثالی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ ایک بیان میں، انہوں نے پولیس پر بیٹے کو قتل کرنے، لاش کو جلانے اور ہجوم کو بھڑکانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے پولیس کی تفتیش کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کی عدالتی تحقیقات کی اپیل کی۔
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن عمرکوٹ کی پولیس کے اقدامات کی مذمت
ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن عمرکوٹ نے جنرل سیکرٹری جاوید ایس کنبھر کی سربراہی میں پولیس کے رویے کی مذمت کی۔ ایک میٹنگ کے دوران ، ایسوسی ایشن نے پولیس پر تنقید کرتے ہوئے کہ کہ پولیس انتہا پسندوں کی طرح کام کر رہی ہے اور انہوں نے ملزم کو “پولیس مقابلے ” میں مار کر آئینی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
ایسوسی ایشن نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیں اور ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور انہیں معطل کیا جائے ۔ انہوں نے ڈاکٹر کنبھر کے خاندان کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا۔
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین اقبال ڈیٹھو نے بھی عمرکوٹ کا دورہ کیا اور سوگوار خاندان، مقامی حکام اور سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقات کی۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عمرکوٹ میں افراتفری پھیلی ہے جبکہ پولیس مشتعل ہجوم کے زیراثر دکھائی دیتی ہے ۔
اقبال ڈیتھو نے اس امر پر زور دیا کہ اگر ڈاکٹر کنبھار پر کسی جرم کا الزام تھا تو ان پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جانا چاہیے تھا۔ “اس قسم کی توڑ پھوڑ قانون کی حکمرانی اور اداروں کے خلاف ہے،” انہوں نے متاثرہ خاندان کے لیے انصاف اور تحفظ کا مطالبہ بھی کیا۔