انسداد پولیو کا عالمی دن: پاکستان میں کیسز کی تعداد 40 تک پہنچ گئی

0
28

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) آج دنیا بھر میں پولیو کے خلاف عالمی دن منایا جارہا ہے ایسے میں پاکستان میں ایک نیا کیس سامنے آگیا جس سے رواں سال میں ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں انسداد پولیو کی ریجنل ریفرنس لیبارٹری کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کی تحصیل درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے 30 ماہ کے بچے میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون (ڈبلیو پی وی 1) کے کیس کی تصدیق ہوئی ہے۔

لیبارٹری کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ضلع کوہاٹ سے پولیو کا یہ دوسرا کیس ہے، اب تک بلوچستان سے 20، سندھ سے 12، خیبرپختونخوا سے 6، پنجاب اور اسلام آباد سے ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

’اس سال کوہاٹ سے چار ماحولیاتی نمونوں میں ڈبلیو پی وی ون کی تصدیق ہوئی تھی جب کہ اس علاقے سے پہلا کیس ستمبر میں سامنے آیا تھا‘۔

اس کے علاوہ ملک بھر میں 402 ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

رواں سال پولیو کیسز میں مسلسل اضافے سے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے، سال 2019 میں ملک میں 147 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد ان میں کمی ریکارڈ کی گئی۔

سال 2020 میں 85 اور 2021 میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا جب کہ 2022 میں 3، 2023 میں 6 اور 2024 میں اب تک 40 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔

پاکستان میں 28 اکتوبر سے ایک اور ملک گیر ویکسینیشن مہم شروع کی جارہی ہے جس کا مقصد 5 سال سے کم عمر کے ساڑھے 4 کروڑ سے زائد بچوں کو قطرے پلانا ہے۔

عالمی سطح پر پولیو وائرس کی تاریخ
انسداد پولیو پروگرام پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق، بیسویں صدی کے اوائل میں پولیو وائرس صنعتی ممالک میں سب سے زیادہ خوف زدہ کرنے والی بیماریوں میں سے ایک تھا۔ یہ وائرس صنعتی ممالک میں ہر سال لاکھوں بچوں کو مفلوج کر دیتا تھا۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں مؤثر ویکسین متعارف ہونے کے بعد صنعتی ممالک میں پولیو کو قابو میں کر لیا گیا اور ان ممالک میں اس وائرس کو صحت کی ہنگامی صورتحال کے طور پر تقریباً ختم کر دیا گیا۔

ترقی پذیر ممالک میں پولیو کو ایک بڑے مسئلے کے طور پر تسلیم کرنے میں کچھ زیادہ وقت لگا۔ 1970 کی دہائی کے دوران جسمانی معذوری کے سروے کے دوران ظاہر ہوا کہ یہ بیماری ترقی پذیر ممالک میں بھی عام تھی۔

1970 کی دہائی میں دنیا بھر میں قومی حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کا حصہ بناتے ہوئے معمول کے مطابق پولیو کی ویکسینیشن متعارف کروائی گئی، جس سے کئی ترقی پذیر ممالک میں اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔

1988 میں پولیو ہر روز دنیا بھر میں 1,000 سے زیادہ بچوں کو مفلوج کر رہا تھا۔ 1988 سے جب عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز ہوا، تب سے عالمی سطح پر پولیو کی شرح میں 99 فیصد کمی آئی ہے۔

پاکستان میں پولیو ویکسین کب سے دی جا رہی ہے؟
حالیہ برس 2024 میں پاکستان میں انسداد پولیو ویکسین سرکاری طور پر دیے جانے کو 30 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری طور پر قطرے والی پولیو ویکسین کا آغاز 1994 میں ہوا تھا۔

1994 میں اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا کر پاکستان میں انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا تھا۔ اپنی بیٹی کو پولیو کے قطرے پلا کر، اس وقت کی وزیر اعظم نے یہ پیغام دیا تھا کہ یہ ایک محفوظ ویکسین ہے، جسے سب اپنے بچوں کو پلا سکتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ 1994 سے اب تک تقریباً ہر سال ہی انسداد پولیو کی ویکسین کی مہم چلائی جاتی ہے، مگر اس مہم کے 30 سال مکمل ہونے کے باوجود پاکستان پولیو وائرس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا۔

پولیو کا عالمی دن
گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشی ایٹو (جی پی ای آئی) کے مطابق پولیو کا عالمی دن عوام اور سول سوسائٹی کے شراکت داروں کو پولیو کے خاتمے کی عالمی کوششوں کے لیے آگاہی اور وسائل بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ’غزہ میں پولیو وائرس ٹائپ ٹو کے پھیلاؤ نے دنیا کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی ہے کہ جب تک پولیو ’کسی بھی مقام‘ پر موجود ہے، تمام ممالک خطرے میں رہیں گے تاہم غزہ میں پھیلنے والی وبا نے پولیو سے پاک دنیا کے حصول کے لیے عالمی عزم کو بھی ظاہر کیا ہے، جہاں تمام تر مشکلات کے باوجود، ستمبر اور اکتوبر میں پولیو کے خاتمے کے لیے ویکسینیشن کی مہم کا آغاز کیا گیا۔

خاتون اول اور رکن قومی اسمبلی آصفہ بھٹو زرداری نے قوم پر زور دیا ہے کہ وہ پولیو کے خلاف جاری جنگ میں متحد ہو جائیں۔

انہوں نے کہا کہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے پولیو ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے، ضروری ہے کہ ہم مسلسل اور مسلسل ویکسینیشن کی کوششوں کے ذریعے ان کی حفاظت کے لئے اکٹھے ہوں۔