شرم الشیخ امن کانفرنس:سفارتی تماشہ یا مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن؟

شرم الشیخ امن کانفرنس:سفارتی تماشہ یا مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن؟
ڈان نیوز اپنے ایڈیٹوریل میں لکھتا ہے کہ جب دنیا کے چند طاقتور ترین رہنما پیر کے روز مصر کے بحیرہ احمر کے ساحلی تفریحی مقام شرم الشیخ میں جمع ہوئے تو مشرقِ وسطیٰ میں امن کے جشن کے نام پر دراصل سفارتی تماشہ اور مبالغہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ اس موقع پر سب سے نمایاں کردار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تھا جنہوں نے اسرائیل-فلسطین تنازع اور اپنی “غزہ امن منصوبہ” کے حوالے سے خود ستائشی کے انداز میں اعلان کیا کہ “طویل اور تکلیف دہ خوابِ خرابی اب بالآخر ختم ہو گیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اگرچہ غزہ میں نسل کشی بالآخر رک گئی ہے، مگر مقبوضہ فلسطین میں ایک منصفانہ اور پائیدار امن کا حصول ابھی بھی ایک دور کا خواب ہے۔ ٹرمپ کے اس منصوبے کو جو داد و تحسین ملی ہے جن میں پاکستان کے وزیرِاعظم کی تعریف بھی شامل ہے جنہوں نے ایک بار پھر امریکی صدر کو نوبیل انعام دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ انہوں نے “لاکھوں جانیں بچا لی ہیں” اس میں دراصل کچھ خاص ٹھوس بات نہیں۔
ڈان نیوز مزید لکھتا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہے کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی کوئی صاف راہ اس منصوبے میں نظر نہیں آتی، اگرچہ مصر کے صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ معاہدہ دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 1993 کے اوسلو معاہدے نے جو ایک زیادہ تفصیلی مگر خامیوں سے بھرپور فریم ورک پیش کرتا تھا دوسری انتفاضہ کے دوران اسرائیل کی عدمِ سنجیدگی کے باعث ہی دم توڑ دیا تھا۔
مزید یہ کہ غزہ کے لیے غیر ملکی نگرانی میں ایک نوآبادیاتی طرز کی انتظامیہ قائم کرنے اور غیر ملکی افواج تعینات کرنے کا خیال نہایت ناقص ہے۔ خطے کے حالات سے واقف لوگ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران امریکی اور یورپی “امن فوج” کے انجام کو نہیں بھولے ہوں گے؛ وہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ہوا تھا۔ عراق میں “قوم سازی” کے نام پر ہونے والا تباہ کن تجربہ بھی یاد رکھنا چاہیے۔
مختصر یہ کہ نہ غزہ اور نہ ہی مغربی کنارے کو کسی غیر ملکی طاقت کے زیرِانتظام ہونا چاہیے۔ تمام فلسطینی گروہوں کو خواہ ان کے نظریات کچھ بھی ہوں مل کر اپنی سرزمین کا نظم و نسق سنبھالنا چاہیے، یہاں تک کہ قابلِ اعتماد انتخابات کے لیے حالات سازگار بن جائیں۔
یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ شرم الشیخ میں “امن” کے جشن کے دوران اسرائیل کے ان جرائم کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جو اس نے غزہ میں نسل کشی کے دوران کیے۔ بدقسمتی سے صیہونی ریاست دہائیوں سے قانون سے بالاتر ہو کر فلسطینیوں کو قتل، معذور اور ان کی زمینیں ہتھیاتی رہی ہے۔ یہی اسرائیل کی ماضی کی بے سزائی ہے جس نے اسے غزہ میں قتلِ عام کرنے کا حوصلہ دیا۔
ڈان نیوز نے خبردار کیا ہے کہ اگر خطے میں واقعی پائیدار امن مطلوب ہے تو دو باتیں ناگزیر ہیں۔اول، تل ابیب میں موجود وہ عناصر جو ہزاروں غزہ کے شہریوں کے قتل اور بھوک سے موت کے ذمہ دار ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ دنیا کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ “کبھی دوبارہ نہیں” — غزہ جیسی نسل کشی دوبارہ نہیں ہونے دی جائے گی۔
دوم، ایک خودمختار اور قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک واضح اور مضبوط روڈ میپ تیار کیا جائے۔ اس سے کم کوئی بھی قدم صرف تشدد کے اس چکر کو مزید بڑھائے گا، کیونکہ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھے گا، حقیقی امن ممکن نہیں۔