اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب رواں سال اب تک 100 سے زائد غیر ملکیوں کو سزائے موت دے چکا ہے، جن میں سے زیادہ تر منشیات سے متعلق جرائم کے مرتکب ہوئے تھے، جو اس بڑے اضافے کی نشاندہی کرتا ہے جسے انسانی حقوق کے ایک گروپ نے ’غیر معمولی‘ قرار دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 2023 اور 2022 کے اعداد و شمار سے تقریباً تین گنا ہے، جن میں سعودی حکام نے ہر سال مختلف جرائم کے مرتکب ہونے والے 34 غیر ملکیوں کو سزائے موت دی تھی۔
اس سال سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں میں پاکستان سے 21، یمن سے 20، شام سے 14، نائیجیریا سے 10، مصر سے 9، اردن سے 8 اور ایتھوپیا سے 7 افراد شامل ہیں۔ سوڈان، بھارت اور افغانستان سے بھی 3، 3 جبکہ سری لنکا، اریٹیریا اور فلپائن سے ایک، ایک شہری سزائے موت پانے والوں میں شامل تھا۔
برلن میں قائم یورپی-سعودی تنظیم برائے انسانی حقوق (ای ایس او ایچ آر) نے کہا کہ اس سال کی پھانسیوں نے پہلے ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
گروپ کے ڈائریکٹر لیگل طحہٰ الحجی نے کہا کہ ’یہ ایک سال میں غیر ملکیوں کو پھانسی دینے کی سب سے بڑی تعداد ہے، سعودی عرب نے کبھی ایک سال میں 100 غیر ملکیوں کو پھانسی نہیں دی ہے۔‘
اے ایف پی نے ستمبر میں رپورٹ کیا تھا کہ مجموعی طور پر سعودی عرب نے تین دہائیوں سے زائد عرصے میں اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ پھانسیاں دی ہیں، جو کہ 2022 میں 196 اور 1995 میں 192 کی سطح کو عبور کر چکی ہے۔ اس کے بعد سے پھانسیوں کا سلسلہ تیز رفتاری سے جاری ہے اور اتوار تک اس سال پھانسیوں کی مجموعی تعداد 274 ہوگئی ہے۔
سزائے موت کے استعمال پر سعودی عرب کو مسلسل تنقید کا سامنا ہے، جسے انسانی حقوق کے گروپوں نے بین الاقوامی سیاحوں اور سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوششوں کے برخلاف اور تعداد کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے اس پر اظہار مذمت کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سلطنت نے 2023 میں چین اور ایران کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ قیدیوں کو پھانسی دی تھی۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے رپورٹ کیا کہ تازہ ترین پھانسی 16 نومبر کو جنوب مغربی علاقے نجران میں ایک یمنی شہری کی تھی جسے خلیجی ریاست میں منشیات اسمگل کرنے کے جرم میں سزا دی گئی۔
سرکاری میڈیا رپورٹس سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس سے 2024 میں اب تک پھانسی پانے والے غیر ملکیوں کی تعداد 101 ہو گئی۔