اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) رخشان اور مکران ڈویژن کے مختلف سرحدی ٹاؤنز میں سرحدی تجارت پر پابندیوں اور پاکستان۔ایران سرحد کے ساتھ سرحدی پوائنٹس کی بندش کے خلاف احتجاجاً شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق اس بندش سے پاکستان میں ایرانی پیٹرولیم مصنوعات اور سامان کی سپلائی متاثر ہوئی ہے، جس سے بڑے پیمانے پر بےامنی پھیلی اور ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔
رخشان اور مکران سرحدی تجارتی اتحاد نے سرحدی تجارت میں تین روزہ ہفتہ وار تعطل اور تیل کی نقل و حمل پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کے لیے واشک، پنجگور، نوکنڈی اور دیگر سرحدی علاقوں میں مکمل شٹر ڈاؤن کی کال دی تھی۔
ہڑتال کے دوران ان سرحدی ٹاؤنز میں بازار، ہوٹل، بینک اور دیگر کاروبار بند رہے، جس سے تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔
اتحاد کے عہدیداران کے مطابق ان علاقوں کے مکین اپنی روزی روٹی کے لیے مکمل طور پر سرحدی تجارت پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ زراعت اور صنعت کے مواقع محدود ہیں۔ تجارتی مقامات کی بندش سے ہزاروں خاندان روزگار سے محروم ہوگئے ہیں جو اپنی آمدنی کے لیے ایرانی تیل اور دیگر سرحدی تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔
نوکنڈی میں، پاکستان-ایران سرحد کی بندش سے ضروری سامان کی نقل و حمل میں خلل پڑا ہے، جس سے تاجروں اور رہائشیوں دونوں پر اضافی دباؤ پڑا ہے۔ ٹریڈ یونین رہنماؤں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ حفاظتی چوکیوں نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے جس سے تاخیر اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔
پنجگور میں تجارتی رہنماؤں نے سرحدی پابندیوں کی مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ کئی نسلوں سے روزی روٹی اور مقامی معیشت اس سرحد پار تجارت پر منحصر ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے رکن محمد صادق سنجرانی نے سرحد پر تجارتی پوائنٹس کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ سرحدی تجارت کے لیے ایک جدید ریگولیٹری نظام متعارف کرائے، نہ کہ مکمل بندش کا راستہ اپنائے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ معاشی حالات کے پیش نظر معاش پر پابندی نوجوانوں کو ریاست مخالف عناصر کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
انہوں نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی سرحدوں کے قریب رہنے والے لوگوں کی آمدنی کے بنیادی ذریعے کے طور پر سرحدی تجارت کی اہم اہمیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تجارتی راستوں کی بندش نے غربت اور مایوسی کو مزید اضافہ کیا ہے، خاص طور پر بلوچستان میں جہاں کی کمزور معیشت اضافی بے روزگاری اور مشکلات کو برداشت نہیں کر سکتی۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ حکومت سرحدی تجارت سے متعلق اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، سرحدیں دوبارہ کھولے اور بلوچستان کے معاشی استحکام کو ترجیح دے۔ انہوں نے اس بندش کو معاشی ’سزائے موت‘ قرار دیا اور حکام پر زور دیا کہ وہ ہزاروں لوگوں کے ذریعہ معاش کو دبانے کے بجائے پائیدار ترقی کی حمایت کریں۔