
پاکستان کا سعودی عرب کو افرادی قوت کی فراہمی دگنی کرنے کا منصوبہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) حکام نے پیر کو عرب نیوز کو بتایا کہ پاکستان گزشتہ ماہ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے تاریخی دفاعی معاہدے کے بعد مملکت کو افرادی قوت کی برآمد دگنی کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (BEOE) کے مطابق سعودی عرب کے لیے پاکستان کی افرادی قوت کی برآمد گزشتہ پانچ سالوں کے دوران مسلسل بڑھتی رہی۔
پاکستان نے 2020 سے 2024 کے درمیان سعودی عرب کو 18 لاکھ 80 ہزار افرادی قوت بھیجی جو 2015 سے 2019 کے دوران بھیجے گئے 15 لاکھ 60 ہزار افراد کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔
ترسیلاتِ زر بھی اسی دوران بڑھیں جو 2020 میں 7.39 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2024 میں 8.59 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو سعودی عرب میں پاکستانی محنت کشوں کی مستحکم طلب کی عکاسی کرتی ہیں۔
اس کے برعکس اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کے مطابق متحدہ عرب امارات سے آنے والی ترسیلات 5.8 سے 6.8 ارب ڈالر کے درمیان اتار چڑھاؤ کا شکار رہیں جبکہ قطر سے ترسیلات سالانہ ایک ارب ڈالر سے کم رہیں۔
ستمبر میں دونوں ملکوں نے ایک تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد مشترکہ دفاعی صلاحیت کو بڑھانا اور دہائیوں پر محیط فوجی و سکیورٹی تعاون کو مزید گہرا کرنا ہے۔
پاکستانی وزراء، بشمول وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ اسلام آباد اور ریاض دفاعی معاہدے کے بعد ایک وسیع البنیاد اقتصادی معاہدے پر بھی دستخط کریں گے۔
بیورو کے سینئر ڈائریکٹر گل اکبر نے کہا ہے کہ سعودی-پاکستان دفاعی معاہدہ افرادی قوت کی برآمد پر بہت بڑا اثر ڈالے گا۔ اس وقت اوسطاً ہر سال تقریباً پانچ لاکھ افرادی قوت سعودی عرب جاتے ہیں اور ہم اگلے سال سے اس تعداد کو بڑھا کر دس لاکھ تک پہنچانے کی امید رکھتے ہیں۔
گل اکبر کے مطابق، بیورو پاکستان کی اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) کے ساتھ مل کر اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مختلف اقدامات پر کام کر رہا ہے۔
پاکستانی حکام جلد ہی یہ منصوبہ سعودی ہم منصبوں کے ساتھ آئندہ ملاقاتوں میں شیئر کریں گے۔
پاکستانی حکومت نے اتوار کو ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں وزراء اور حکام شامل ہوں گے تاکہ سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ اقتصادی تعلقات اور مذاکرات کی نگرانی کی جا سکے۔
گل اکبر نے کہا کہ پاکستان نے دونوں ملکوں میں تکنیکی تربیتی ادارے قائم کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ مقامی کارکنوں کی اسکل سرٹیفکیشن اور روزگار کے مواقع بہتر ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستانی کارکنوں کے لیے ای-ویزا سسٹم کی بھی تجویز دے رہے ہیں۔”
سعودی عرب: پاکستانی کارکنوں کی سب سے بڑی منزل
سعودی عرب بدستور پاکستانی کارکنوں کی سب سے بڑی منزل اور ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق صرف اگست میں ہی سعودی عرب سے پاکستان کو 736.7 ملین ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں، جو کل 3.1 ارب ڈالر کے زرِمبادلہ میں سب سے زیادہ حصہ تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں نے ہنرمند اور نیم ہنرمند غیر ملکی کارکنوں کی مضبوط طلب پیدا کی ہے۔
2034 میں سعودی عرب میں ہونے والا فیفا ورلڈ کپ بھی اس طلب کو بڑھا رہا ہے کیونکہ اس کے لیے بڑے اسٹیڈیمز، ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس اور مہمان نوازی کے ڈھانچے کی تعمیر جاری ہے۔
ادھر پاکستان سے متحدہ عرب امارات جانے والے کارکنوں کی برآمد 2020 سے 2024 کے دوران 65 فیصد کم ہو گئی جو 13.2 لاکھ سے گر کر 4.63 لاکھ رہ گئی۔
دوسری طرف قطر نے پاکستانی کارکنوں کی ضرورت دوگنی کر دی اور اسی عرصے میں ان کی تعداد 74 ہزار سے بڑھ کر 1.7 لاکھ ہو گئی، جو خلیجی خطے میں افرادی قوت کی بدلتی ہوئی حرکیات کو ظاہر کرتا ہے۔
مہارت کی توثیق اور شراکت داری
سعودی عرب کی افرادی قوت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے تکامل (Takamol) نامی مہارت کی توثیق کے پروگرام کے ساتھ شراکت داری کی ہے، جبکہ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (NAVTTC) 62 شعبوں میں کارکنوں کو سرٹیفیکیشن فراہم کر رہا ہے، جن میں تعمیرات سے لے کر تکنیکی خدمات تک شامل ہیں۔
ایم پاک مکہ من پاور سروسز کے سی ای او مسعود احمد نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کی کمپنی نے اس سال ہی 2,000 کارکن سعودی عرب بھیجے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ دفاعی معاہدے نے سعودی آجروں کا پاکستانی کارکنوں پر اعتماد بڑھا دیا ہے کیونکہ دونوں ملک تعاون کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔انہوں نے خاص طور پر صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد اور ڈلیوری ڈرائیورز کی بڑھتی ہوئی طلب کا ذکر کیا۔
ترسیلات: معیشت کی ریڑھ کی ہڈی
گل اکبر نے ’’برین ڈرین‘‘ کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بیرونِ ملک ملازمت کو ایک ’’قومی کامیابی‘‘ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی زائد افرادی قوت ایک معاشی وسیلہ ہے جو نہ صرف ترسیلات زر لاتی ہے بلکہ علم اور تکنیکی مہارت بھی وطن واپس لاتی ہے۔
ترسیلات زر پاکستان کے بیرونی مالیاتی نظام کا بنیادی ستون بنی ہوئی ہیں، جو گھریلو کھپت کو سہارا دیتی ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرتی ہیں اور زرِمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط بناتی ہیں۔
گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے کارکنوں کی ترسیلات زر کی مد میں 38.3 ارب ڈالر ریکارڈ کیے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 8 ارب ڈالر زیادہ ہیں اور ملک کے 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف قرض پروگرام سے بھی زیادہ ہیں۔



