اردو انٹرنیشنل (سپورٹس ڈیسک) تفصیلات کے مطابق، پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے عالمی ہاکی فیڈریشن کو حالات سے آگاہی کا خط لکھا گیا تھا جس کا نوٹس لیا گیا اور ایف آئی ایچ نے دونوں دھڑوں کو 25 اپریل تک اپنا مؤقف اور ثبوت جمع کرانے کی ہدایات کر دی۔
پی ایچ ایف کی جانب سے خط سیکرٹری حیدر حسین نے صدر ایف آئی ایچ کو لکھا تھا، خط میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی ایچ آئی او سی اسپورٹس گورنس چارٹر پر عمل پیرا ہوکر پاکستان ہاکی فیڈریشن کا ساتھ دے۔ پی ایچ ایف کی جانب سے خط میں کہا گیا ہے کہ آئی او سی، ایف آئی ایچ اور پی ایچ ایف آئین میں متوازی تنظیم کی گنجائش نہیں، ایف آئی ایچ کو اس بابت بارہا مطلع کیا کہ کچھ عناصر متوازی تنظیم سازی میں ملوث ہیں۔
خط میں لکھا گیا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے اسپورٹس فیڈریشنز کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا لیٹر ریکارڈ پر ہے اور وازرت وزارت بین الصوبائی رابطہ نے آئی او سی کو اسپورٹس فیڈریشنز کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
پی ایچ ایف نے کہا کہ نامساعد حالات کے باوجود انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کو یقینی بنایا، 2018 میں پرولیگ میں شرکت نہ کرنے کا خمیازہ پاکستان ہاکی کو تنزلی کی صورت میں بھگتنا پڑا مگر پی ایچ ایف کی بھرپور کوشش ہے کہ انٹرنیشنل رینکنگ کو بہتر بنایا جائے اور اس کیلئے ایف آئی ایچ اپنا کردار ادا کرے اور پی ایچ ایف کے ساتھ یکجہتی کرے۔ ایف آئی ایچ نے معاملےکا نوٹس لیتے ہوئے دونوں دھڑوں کو 25 اپریل تک اپنا مؤقف اور ثبوت جمع کرانے کی ہدایات دے دی، ایف آئی ایچ نے بتایا کہ ایف آئی ایچ کے صدر طیب اکرام کو پاکستان سے تعلق ہونے کی بنیاد پر اس معاملے میں شامل نہیں کیا جا رہا۔
ایف آئی ایچ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو حکومت پاکستان کے ساتھ ملکر احسن طریقے سے معاملے کا حل نکالنے کی بھی درخواست کرے گی، ایف آئی ایچ کے سینئر ڈائریکٹر جان ویٹ کا کہنا ہے کہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی کھلاڑی انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کرتے رہیں۔ یاد رہے ملک میں ہاکی کی 2 الگ فیڈریشن کے قیام پر سابق اولمپئنز کلیم اللہ نے وزیر اعظم شہباز شریف سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر معاملہ حل نہ کیا گیا تو انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن پاکستان پر 10 سال کی پابندی بھی لگا سکتی ہے۔