روسی تیل پالیسی پر بھارت کا غیر واضح مؤقف،ٹرمپ کے دعوے کی نہ تصدیق کی نہ تردید

روسی تیل پالیسی پر بھارت کا غیر واضح مؤقف،ٹرمپ کے دعوے کی نہ تصدیق کی نہ تردید
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ نئی دہلی نے روسی تیل خریدنا بند کرنے کا وعدہ کیا ہے، اس کی توانائی کی ترجیح اپنے شہریوں کے مفادات کا تحفظ ہے۔
نئی دہلی نے نہ اس بات کی تصدیق کی اور نہ تردید کہ وہ روس کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ توانائی کے غیر یقینی عالمی حالات میں ہمارا مستقل مؤقف یہ رہا ہے کہ ہم بھارتی صارفین کے مفادات کا تحفظ کریں۔ ہماری درآمدی پالیسیاں مکمل طور پر اسی مقصد کے تحت تیار کی جاتی ہیں۔
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی ماضی میں روس سے تیل خریدنے کا دفاع کر چکے ہیں جو بھارت کا ایک دیرینہ اتحادی ملک ہے، حالانکہ ماسکو نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے۔
اگست میں ٹرمپ نے بھارتی برآمدات پر محصولات 50 فیصد تک بڑھا دیے تھے، اور ان کے مشیروں نے بھارت پر الزام لگایا تھا کہ وہ روس کی جنگی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔
جیسوال نے مزید کہا توانائی کی قیمتوں میں استحکام اور سپلائی کی سلامتی ہماری توانائی پالیسی کے دو بنیادی اہداف رہے ہیں۔ اس میں توانائی کے ذرائع کو وسیع کرنا اور مارکیٹ کے حالات کے مطابق تنوع پیدا کرنا شامل ہے۔بھارت دنیا کے سب سے بڑے خام تیل درآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور اپنی تیل کی ضروریات کا 85 فیصد سے زائد حصہ بیرونی ممالک سے حاصل کرتا ہے۔
روایتی طور پر نئی دہلی مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر انحصار کرتا رہا ہے، لیکن 2022 کے بعد سے اس نے روسی تیل کی طرف رخ کیا — جب مغربی ممالک نے ماسکو کی برآمدات پر پابندیاں لگائیں اور روسی تیل رعایتی قیمتوں پر دستیاب ہوا۔
جیسوال نے کہا جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، ہم کئی سالوں سے توانائی کی خریداری کے ذرائع میں وسعت کے خواہاں رہے ہیں۔ اس ضمن میں پچھلی دہائی میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ موجودہ امریکی حکومت نے بھارت کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون کو گہرا کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اور اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔