
ٹرمپ کا امن منصوبہ : سنجیدہ کوشش یا سیاسی شعبدہ بازی؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا جسے انہوں نے بیس نکاتی فریم ورک قرار دیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی اس منصوبے کی تائید کی اور اسے خطے کے مستقبل کے لیے اہم قرار دیا۔ اس منصوبے کے مطابق غزہ کو مکمل طور پر
غیر مسلح کر دیا جائے گا، وہاں عسکری ڈھانچہ یا ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی اور حماس کے تمام انفراسٹرکچر کو ختم کیا جائے گا۔ انتظامی طور پر غزہ کی نگرانی ایک بین الاقوامی ادارہ کرے گا جس کی سربراہی صدر ٹرمپ کے پاس ہوگی جبکہ عملی ذمہ داریاں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو سونپی جائیں گی۔
منصوبے کی شرائط کے تحت حماس آئندہ کسی بھی سیاسی یا حکومتی کردار سے دستبردار ہوگی اور صرف شہری سطح پر اپنی سرگرمی جاری رکھ سکے گی۔ اگر حماس نے 72 گھنٹوں کے اندر تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا اور لاشیں واپس کر دیں تو اس کے بدلے میں تقریباً 1700 فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے جنہیں گزشتہ دو سالوں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
منصوبے میں فلسطینی ریاست یا حقِ خود ارادیت کے معاملے کو نمایاں طور پر شامل نہیں کیا گیا، جو ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مشرقی یروشلم کا مسئلہ بھی منصوبے میں واضح نہیں کیا گیا تاہم ٹرمپ نے یاد دلایا کہ انہوں نے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا تھا اور اس کے باوجود کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا۔
تعمیر نو کی ذمہ داری بظاہر عرب ممالک پر ڈال دی گئی ہے، لیکن ٹرمپ نے کہا کہ اصل ذمہ داری ان کی انتظامیہ، اسرائیل اور نیتن یاہو کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس منصوبے کی عملی شکل پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹونی بلیئر پر عراق جنگ میں کردار کے باعث پہلے ہی سخت تنقید کی جاتی رہی ہے، ایسے میں کیا وہ غزہ کے لیے موزوں ہوں گے؟ فلسطینی رہنما یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اگر منصوبے میں حقِ خود ارادیت شامل ہی نہیں تو عوام اسے کس طرح قبول کریں گے؟
تعمیر نو کے اخراجات، مالی شفافیت اور قبضے کے مستقبل کے حوالے سے بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ ایک جامع خاکہ پیش کرتا ہے جس میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، غیر عسکری غزہ اور بین الاقوامی نگرانی شامل ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کیا یہ فلسطینی عوام کی توقعات پر پورا اتر پائے گا یا نہیں۔ آنے والے دنوں میں واضح ہوگا کہ یہ منصوبہ حقیقی امن کی راہ ہموار کرتا ہے یا محض ایک نظریاتی دعویٰ بن کر رہ جائے گا۔بتر کرکے لکھ دیں ایڈٹورل انداز میں