پاکستان کے ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی ہندو سیاسی قوت کیوں نہیں بن پا رہے؟
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈپٹی کمشنر عمر کوٹ کے دفتر کے باہر چند افراد جمع ہو کر نعرے بازی کر رہے ہیں۔ ان کی نمائندگی تیرتھ سنگھ میگھوار کر رہے ہیں۔
کچھ دیر نعرے بازی کرنے کے بعد، یہ لوگ فارم بھرتے ہیں اور پھر اپنا انتخابی نشان لینے اندر جاتے ہیں۔ تیرتھ سنگھ نوٹس بورڈ پر آویزاں انتخابی نشانات میں سے اپنی مرضی کا انتخابی نشان چنتے ہیں۔
تیرتھ سنگھ ایک ہندو ہیں اور 8 فروری کو پاکستان میں ہونے والے آنے والے عام انتخابات میں عمر کوٹ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔
عمر کوٹ انڈین سرحد سے تقریباً 60 کلومیٹر دور مشرقی سندھ میں واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ ہندوؤں کی آبادی سندھ میں ہے۔ مسلم اکثریتی پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے باوجود، سندھ اپنی تاریخی ہندو خصوصیات اور روایات کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
عمرکوٹ کا پرانا نام امرکوٹ تھا جو ایک مقامی ہندو بادشاہ کے نام پر رکھا گیا تھا۔
سنہ 1542 میں مغل شہنشاہ اکبر امرکوٹ قلعہ میں پیدا ہوئے جو گیارہویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
شہر کی تاریخ کافی پرانی ہے. لیکن ایک چیز جو اس شہر کو الگ پہچان دیتی ہے وہ یہ کہ عمرکوٹ اب بھی ہندو اکثریتی علاقہ ہے۔
مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت یہاں کی تقریباً 80 فیصد آبادی ہندو برادری پر مشتمل تھی۔ تاہم، ٹھاکر برادری جو یہاں آباد ہندوؤں میں سب سے امیر تھی، آہستہ آہستہ انڈیا چلے گئی۔
لیکن شیڈول کاسٹ (نچلی ذات سمجھے جانے والے ہندو) کے لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ یہاں سے ہجرت کر سکیں تو وہ یہیں ٹھہر گئے۔ یہاں رہنے والے 90 فیصد ہندوؤں کا تعلق شیڈول کاسٹ سے ہے۔
عمرکوٹ کے ہندو اکثریت کے باوجود سیاسی طاقت سے محروم
اونچی ذات کے ہندوؤں کا غلبہ
تیرتھ میگھوار کا کہنا ہے کہ یہاں شیڈول کاسٹ کے ہندوؤں کی بڑی تعداد آباد ہے لیکن انھیں قومی سیاست میں مناسب نمائندگی نہیں ملی ہے۔ اس کے لیے وہ اونچی ذات کے امیر لوگوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
تیرتھ سنگھ کہتے ہیں ’ہم اقتدار حاصل کرکے ہی اس نظام میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس عدم توازن کو ختم کرنے اور اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ان کا الزام ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے بڑی سیاسی جماعتیں ہنو اقلیتی برادری کے لیے مختص نشستیں بڑے جاگیرداروں، تاجروں اور امیر اعلیٰ ذاتوں کو بیچ رہی ہیں۔ ’اس کی وجہ سے ہماری سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ ہمیں اس کے خلاف مزاحمت کرنی پڑے گی۔ تب ہی ہم سماجی طور پر خود کو اٹھا سکتے ہیں۔‘
سنہ 2000 سے قبل، پاکستان میں اقلیتوں کے لیے الگ انتخابی انتظام ہوا کرتا تھا۔ تاہم، سنہ 2000 میں سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے اس نظام کو ختم کر دیا۔
اقلیتوں کے لیے اب بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں مخصوص ہیں تاہم وہ دیگر شہریوں کی طرح ملک کے کسی بھی حصے سے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
لیکن، عمرکوٹ کی ہندو برادری کا خیال ہے کہ مشترکہ الیکٹورل کالج نے ان کی سیاسی طاقت کو کم کر دیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کوئی شیڈول کاسٹ ہندو آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہا ہے۔
سنہ 2013 کے بعد سے کئی شیڈول کاسٹ کے امیدوار انتخابات میں اپنی قسمت آزما چکے ہیں مگر کوئی بھی کامیاب نہ ہوا۔
شیورام سوتھر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کا تعلق اس ہی برادری سے ہے۔ ’اس کی ایک وجہ پیسہ ہے لیکن یہ اعتماد کا معاملہ بھی ہے۔‘
شیورام کہتے ہیں کہ شیڈول کاسٹ کے امیدوار عام طور پر انتخابات سے کچھ دن پہلے میدان چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے حامی دلبرداشتہ ہو گئے ہیں۔
’یہی وجہ ہے کہ مقامی ہندو آبادی بھی ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔‘ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بجائے، مقامی ہندو ان مسلم امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جنھیں وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ طاقتور ہیں اور ان کے کام کروا سکتے ہیں۔
تاہم شیورام کا ماننا ہے عمرکوٹ میں ہندوؤں اور مسلمانوں سب کے مسائل ایک جیسے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ مختلف مذہب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ دراصل، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کی مالی حالت کیا ہے۔ غریب کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ صحت اور تعلیم جیسی سہولیات تک ان کی رسائی بہت کم ہے۔ ان کے پاس سماجی سہولیات اور آگے بڑھنے کے مواقع محدود ہیں۔ غریب ہندو ہے یا مسلمان اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی اور ہندو امیدوار
لال چند پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ وہ ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ ان تین شیڈول کاسٹ کے امیدواروں میں ایک ہیں جنھیں پارٹی نے یہاں سے ٹکٹ دیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کبھی بھی عمرکوٹ کی جنرل سیٹ پر کسی ہندو امیدوار کو کھڑا نہیں کیا۔ جبکہ شہر کی 52 فیصد آبادی ہندو ہے۔
لال چند کہتے ہیں کہ ’مین سٹریم پارٹیوں نے ہمیں ہمارے حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ وہ صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو فروغ دیتے ہیں۔ میں بہت مشکور ہوں کہ ایم کیو ایم پاکستان نے ہماری کمیونٹی پر اعتماد کا اظہار کیا۔‘
لال چند کہتے ہیں کہ یہاں بھیل، کولی، میگھوار، مالہی اور یوگی جیسی ذاتوں کے لوگ بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ اس لیے انھیں اسی امیدوار کو ووٹ دینا ہوگا، جسے زمیندار ان سے ووٹ دینے کے لیے کہے گا۔ ’اونچی ذات کے ہندو ہمارے درد کو نہیں سمجھتے۔ وہ اقتدار کے حامل لوگوں کے ساتھ ہیں۔ جبکہ ہم جیسے اکثریتی ہندوؤں کو ناانصافی کا سانہ ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ سیاست ایک مہنگا کاروبار ہے۔ اس لیے وہ ایسے امیدواروں پر شرط نہیں لگانا چاہتے جن کی جیت کے امکانات کم ہوں۔ ’تاہم، اب کارکنوں میں سے زیادہ لوگ آگے آرہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے اسمبلی (پارلیمنٹ) میں پہنچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔‘
- کرشنا کوہلی: والدین کو پتا ہی نہیں کہ سینیٹر کیا ہوتا ہے
- ’تھر کی لڑکیاں وہ سب کریں جو وہ کرنا چاہتی ہیں‘
- کرشنا کوہلی: والدین کو پتا ہی نہیں کہ سینیٹر کیا ہوتا ہے
عمران خان کی پارٹی اور ہندو امیدوار
عمران خان کی تحریک انصاف نے عمرکوٹ سے ملہی برادری کے دو امیر بھائیوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے میدان میں اتارا ہے۔
چونکہ پارٹی کو سپریم کورٹ نے بلے کے انتخـابی نشان پر الیکشن لڑنے سے روک دیا ہے۔ اس لیے اب وہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔
پارٹی کے امیدوار لیکھراج ملہی نے بی بی سی کو بتایا کہ جس طرح حکومت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور امیدواروں کو نشانہ بنا رہی ہے اسی طرح ان کے خاندان کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔
ان کا الزام ہے کہ ’ہمارے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ ہمارے خلاف دہشت گردی کو فروغ دینے کے مقدمات بنائے گئے۔ میرے بڑے بھائی کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن تمام تر دھمکیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود ہم عمران خان کے نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
ان کا ماننا ہے کہ صرف عمران خان عمرکوٹ کو پاکستان پیپلز پارٹی کی گرفت سے نکال سکتے ہیں۔
لیکن ماہرین سمجھتے کہ مستقبل قریب میں ایسا ممکن نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف صرف پنجاب اور شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا تک محدود ہے۔ اور پارٹی سندھ میں ابھی تک اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
اس کے باوجود انتخابات میں شیڈول کاسٹ کے ہندوؤں کی شرکت یقیناً تبدیلی کی علامت ہے۔