Wednesday, February 19, 2025
Homeاسرائیلحماس کا سب سے بہترین دوست کون ہے؟

حماس کا سب سے بہترین دوست کون ہے؟

Published on

غزہ کی سرزمین کو خریدنے کی بات کرکے، تین مراحل پر مشتمل حماس اسرائیل جنگ بندی منصوبے کو نقصان پہنچا کے اور ہمسایہ عرب ممالک کو غزہ کے فلسطینی مہاجرین کو قبول کرنے کا کہہ کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حماس کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حماس کا بہترین دوست کون ہے؟ مصر؟ اردن؟ حزب اللہ ؟ ایران؟ یا رملہ میں موجود فلسطینی اتھارٹی؟ تو اس کا جواب ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ مصر کو حماس سے کوئی محبت نہیں۔ حماس اخوان المسلمون کی ایک شاخ ہے۔ مصری صدر جنرل عبدالفتح السیسی نے مصر سے اخوان کا وجود ختم کرنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے اور وہ اپنی اس کوشش میں اسرائیل سے کہیں زیادہ کامیاب ہیں جو پندرہ مہینوں کی طویل ترین جنگ میں بھی حماس کو ختم نہیں کرسکا۔ اردن میں بہت زیادہ تعداد میں فلسطینی رہتے ہیں اور اگر انہیں کبھی موقع ملے تو اردن کی بادشاہت کو ختم کرنے میں ذرا دیر نہ لگائیں۔ حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ حالیہ جنگ کے دوران اپنی تمام تر اعلیٰ قیادت سے محروم ہوکر اس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ اس نے اسرائیلی شرائط پر جنگ بندی قبول کرلی ہے۔ ایران نے اسرائیل کے مقابلے میں چند اقدامات ضرور کئے ہیں جنہیں بہادرانہ کہا جاسکتا ہے مگر اب وہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ براہ راست تنازع ان کے مفاد میں نہیں ہے خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب وائٹ ہاوس میں مقیم نئے عالمی تھانیدار سے کچھ بھی ممکن ہے۔جہاں تک بات رملہ میں موجود فلسطینی اتھارٹی کی ہے تو وہ حماس سے جتنی نفرت کرتے ہیں اتنی تو شائد اسرائیل کو بھی نہ ہوگی۔
تو اس ساری صورتحال میں ہمارا دعویٰ ہے کہ حماس کا سب سے بہترین دوست ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ ابھی چند دن پہلے ٹرمپ نے غزہ سے متعلق اپنا نیا خیال پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ خالی کرکے مصر اور اردن میں کی جانب منتقل ہو جانا چاہیئے تو بہت سے لوگوں کو لگا کہ شائد وہ کوئی مذاق کررہے ہیں۔ جب امریکی صدر کو یہ بتایا گیا کہ مصر اور اردن ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے تو انہوں نے چار فروری کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی موجودگی میں کہا کہ یہ ممالک جلد ہی ان کی بات مان جائیں گے۔ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنے اس منصوبے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے جہاں اب ہزاروں کی تعداد میں ایسے بم اور دھماکہ خیز مواد موجود ہے جو ابھی تک پھٹا نہیں ہے۔چونکہ غزہ کے لوگوں کے پاس اس کے علاوہ رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اس لئے وہ اس خطرناک ملبے پر رہنے پر مجبور ہیں۔ غزہ کے لوگوں کو ان کے اس منصوبے پر خوش ہونا چاہیئے کیونکہ اگر وہ کسی نئی جگہ پر جا کر آباد ہوں گے تو انہیں وہاں امن سے جینے کا موقع ملے گا۔ انہیں روزگار مہیا ہوگا اور اپنے بچوں کی بہتر پرورش اور تعلیم وتربیت کر سکیں گے۔ اس دوران ٹرمپ نے ایک صحافی کا وہ سوال نظر انداز کردیا جس میں ان سے دوریاستی حل سے متعلق پوچھا گیا تھا۔ اپنے اس منصوبے کی سنجیدگی واضح کرنے کے لئے ٹرمپ نے کہا کہ اگر انہیں اپنے اس ارادے پر عملدرآمد کے لئے امریکی افواج کو بھی بھیجنا پڑا تو وہ یہ بھی کر گزریں گے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے کالم نگار پیٹر بیکر نے اس صورتحال کو مزاحیہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسی صورت میں تو وہاں دو ریاستیں قائم ہوجائیں گی ایک اسرائیلی ریاست اور دوسری امریکی ریاست۔
ٹرمپ نے اپنے منصوبے کے مزید نکات واضح کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ کو خرید لے گا پھر آئندہ پندرہ سالوں میں غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی اور یوں یہ خطہ مشرق وسطیٰ کا نیا ریویرا بن جائے گا۔ یہاں ناصرف فلسطینی آکر رہ سکیں گے بلکہ دنیا کے ہر خطے کے لوگ یہاں آکر آباد ہوں گے۔ اس صورتحال سے ظاہر ہے کہ ٹرمپ کی رئیل اسٹیٹ کاروبار کی ہوس کم نہیں ہورہی اور وہ رواں ہفتے پہلے پانامہ ، پھر گرین لینڈ اور غزہ کو خریدنے کی بات کرچکے ہیں۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان تینوں خطوں کی ایک جغرافیائی اہمیت ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ منصوبہ غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو حماس کے مزید قریب کر دے گا۔ مصر اور اردن جو پہلے ہی اس منصوبے کو یکسر مسترد کر چکے ہیں ، ان کی جانب سے اس منصوبے کے خلاف ایک متحدہ عرب محاذ تشکیل پاتا ہوا دکھائی دے رہا ہےجس میں ان دونوں ممالک کے علاوہ سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک شامل ہیں۔ خاص طور پر سعودی عرب نے ایسے کسی بھی منصوبے کی کھل کر مخالفت کی ہے جس میں فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہ ہو۔ سعودی عرب جو کل تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ نظر آتا تھا اب ایسے کسی بھی اقدام کو ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط قرار دے چکا ہے۔
ایسی صورتحال میں جو ایک منظرنامہ واضح ہورہا ہے وہ یہ کہ مشرق وسطیٰ کے عرب معاشروں میں حماس کی پسندیدگی اور شہرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ مزید یہ کہ ٹرمپ کے اس مجوزہ منصوبے سے حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر کیا اثرات ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ایسی صورتحال میں حماس بھلا ٹرمپ سے راضی کیوں نہ ہوگی؟
ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ نیتن یاہو کے کانوں کو بہت بھلا محسوس ہو رہا ہو کیونکہ جب ان سے اس پریس کانفرنس کے دوران پوچھا گیا کہ حماس اور اسرائیل کی تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا مستقبل کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ صدر ٹرمپ نے اس ساری صورتحال سے متعلق ایک بہت ہی مختلف اور اعلیٰ درجے کا خیال پیش کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ اس جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ اب ناکام ہوگا؟ نیتن یاہو کی خوشی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی منصوبے سے متعلق اپنا فیصلہ آئندہ چار ہفتوں میں سنائیں گے۔
یہ سچ ہے کہ غزہ کے لوگ اپنی سرزمین سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ان مہاجرین کی اولاد ہیں جنہیں انیس سو اڑتالیس میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت زبردستی اپنے گھروں سے بے دخل کرکے نقل مکانی پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ بہت سے فلسطینی مختلف عرب ممالک مثلا مصر، اردن، شام، لبنان، وغیرہ کی جانب ہجرت کرگئے اور بہت سوں نے غزہ کی ساحلی پٹی پر مہاجرین بستیاں قائم کرلیں۔ یہ لوگ ٹرمپ کے اس منصوبے کو ٹھکرا چکے ہیں مگر شائد ایک صورت ایسی ہے جس میں وہ غزہ کو چھوڑنے پر رضامند ہوجائیں گے۔ انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے دیا جائے جہاں سے اسرائیل کے قیام کے وقت انہیں زبردستی بے دخل کرکے غزہ کی مہاجر بستیوں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ غزہ کے بہت سے باسیوں کے پاس آج بھی ان مکانوں کے جائز مالکانہ حقوق موجود ہیں جنہیں اب اسرائیل اپنی سرزمین قرار دیتا ہے۔ ویسے بھی ان فلسطینیوں کی اپنے حقیقی آبائی گھروں کی جانب واپسی کے حق کو بغیر کسی ابہام کے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ایک سو چورانے کی شق گیارہ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر ان فلسطینیوں کو اپنے ان آبائی گھروں میں واپس آنے دیا جائے تو ان کے گھروں پر قابض اسرائیلی آزاد ہوں گے کہ وہ چاہیں تو جاکر غزہ کی مہاجر بستیوں میں آباد ہو جائیں اور ویسے بھی یہ ایک ایسا خیال ہے جس پر عملدرآمد بہت سے انتہا پسند صیہونیوں کا پرانا خواب ہے۔ ایسی صورت میں صیہونی تحریک کے اس پرانے نعرے کو بھی عملی شکل مل جائے گی جو کہتا ہے کہ ” وہ سرزمین جہاں لوگ آباد نہیں ہیں ان لوگوں کو دے دی جائے جن کے پاس رہنے کو زمین نہیں ہے۔”
اسرائیلی وہاں اپنا مستقل ٹھکانہ قائم کرسکتے ہیں البتہ کچھ قدیم فلسطینی بستیاں وہاں بھی ان کی ہمسایہ ہوں گی۔
یہ ٹرمپ کی خام خیالی کے جواب میں میری خام خیالی تھی۔ میری خام خیالی تو پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی مگر آپ ٹرمپ کی خام خیالی سے متعلق کیا کہتے ہیں؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ چند عرب اور شائد چند غیر عرب ممالک بھی کچھ ہزار فلسطینیوں کو اپنے ہاں پناہ دینے پر رضامند ہوجائیں۔ ابھی حال ہی میں ایک افریقی ملک روانڈانے مالی فائدے کے عوض برطانیہ سے بے دخل کئے گئے غیر قانونی تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کیا ہے۔
ویسے بھی یہ مشرق وسطیٰ ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے آپ کو زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
مترجم : محمد شوذب عسکری
نو فروری دوہزار پچیس ۔ اسلام آباد
بشکریہ : انڈین ایکسپریس
اس مضمون کے مصنف چنمایا۔ آر۔ غریخان ہیں جو اقوام متحدہ میں انڈیا کے مستقل مندوب کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور ایک کتاب بعنوان” طاقت کے مراکز: وزیراعظم آفس اور سلامتی کونسل میں گزرے چند سالوں کا احوال” لکھ چکے ہیں۔

Latest articles

پریمیئر لیگ ، ٹوٹنہم کی مانچسٹر یونائیٹڈ کو 1-0 سے شکست

ٹوٹنہم ہاٹسپر نے مانچسٹر یونائیٹڈ کو 1-0 سے شکست دے کر پریمیئر لیگ میں...

عراق کے پانچ بینکوں پر امریکی ڈالر میں لین دین پر پابندی عائد کردی گئی

عراق کے مرکزی بینک نے مزید پانچ مقامی بینکوں پر امریکی ڈالر میں لین...

پابندیاں ختم، امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو تباہ کن اسلحے کی کھیپ موصول

امریکہ نے اسرائیل کو بھاری ہتھیاروں کی ایک اور کھیپ فراہم کر دی ہے،...

ایران کے جوہری عزائم اور مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ ختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں، نیتن یاہو

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکی سیکریٹری خارجہ...

More like this

پریمیئر لیگ ، ٹوٹنہم کی مانچسٹر یونائیٹڈ کو 1-0 سے شکست

ٹوٹنہم ہاٹسپر نے مانچسٹر یونائیٹڈ کو 1-0 سے شکست دے کر پریمیئر لیگ میں...

عراق کے پانچ بینکوں پر امریکی ڈالر میں لین دین پر پابندی عائد کردی گئی

عراق کے مرکزی بینک نے مزید پانچ مقامی بینکوں پر امریکی ڈالر میں لین...

پابندیاں ختم، امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو تباہ کن اسلحے کی کھیپ موصول

امریکہ نے اسرائیل کو بھاری ہتھیاروں کی ایک اور کھیپ فراہم کر دی ہے،...