فیس بک اور انسٹاگرام کے پیچھے کام کرنے واالی کمپنی میٹا پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے فلسطین اور فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے ۔یہ آن لائن سینسرشپ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل اور فلسطینی مسلح گروہوں کے درمیان تنازعے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے میں لگ بھگ 1200 اسرائیلیوں کی اموات ہوئیں اور 14 دسمبر تک اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 18000 فلسطینی مارے گئے ۔
اکتوبر اور نومبر 2023 کے درمیان ہومین رائٹس واچ نے فیس بک اور انسٹاگرام پر فلسطین کی حمایت میں پوسٹ کیے گئے مواد کو ہٹانے یا دبانے کے 1050 سے زائد واقعات رپورٹ کیے ہیں ، ان میں 1049 کیسز فلسطین کی حمایت میں کیے گئے مواد کو ہٹانے پر مشتمل ہیں جبکہ ایک کیس اسرائیل نواز مواد کو ہٹانے کے متعلق ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے دریافت کیا کہ انسٹاگرام اور فیس بک پر فلسطین سے متعلق مواد کی سنسر شپ وسیع اور عالمی سطح پر کی گئی ہے۔ میٹا نے ماضی میں بھی اس طرح کے حربے استعمال کیے ہیں جس پر اس نے معذرت اور بہتری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ہیومین رائٹس واچ کا موقف ہے کہ میٹا کے اقدامات بین الاقوامی آزادی رائے کے حقوق سے متصادم ہیں ۔
ہیومن رائٹس واچ نے انسٹاگرام اور فیس بک پر چھ طرح کی غیر ضروری سنسرشپ کی نشاندہی کی جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
(1) پوسٹس، کہانیوں اور تبصروں کو ہٹانا شامل ہے۔
(2) اکاؤنٹس کو معطل یا مستقل طور پر غیر فعال کرنا؛
(3) 24 گھنٹے سے لے کر تین ماہ تک ، مواد کو (لائک ، کمنٹ،شیئر) کرنے پر پابندی
(4) دوسرے اکاؤنٹس کو فالو کرنے یا ٹیگ کرنے پر پابندی
(5) بعض خصوصیات جیسے لائیو سٹریمنگ، مونیٹائزیشن، پر پابندی
اور( 6) “بغیر کسی نوٹیفیکیشن کے پوسٹ اور اسٹوریز کی نمود میں کمی
اس سے قبل بھی ہومین رائٹس واچ نے یہ تنبیہ کی ہے کہ میٹا اپنی من مانی کرتے ہوئے انسانی اور ڈیجیٹل حقوق کی حمایت میں اٹھائی گئی آوازوں کو دبانے کی کوشش کرچکا ہے۔ میٹا نے عربی اور عبرانی زبان میں مواد کی تشہیر میں ممکنہ تعصب کی تحقیقات کے لیے بزنس فار سوشل ریسپانسیبلٹی (BSR) کو فہرست میں شامل کیا۔ ستمبر 2022 میں شائع ہونے والی بی ایس آر رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ میٹا کے اقدامات سے فلسطینی صارفین پر انسانی حقوق کے منفی اثرات مرتب ہوئے، جس سے ان کی آزادی اظہار، اسمبلی، سیاسی شرکت اور غیر امتیازی سلوک متاثر ہوا۔ رپورٹ میں فلسطینیوں کی اپنے تجربات کے بارے میں معلومات شیئر کرنے کی صلاحیت پر، پابندیوں پر روشنی ڈالی گئی۔
اقوام متحدہ کے گائیڈلائنز کے مطابق، میٹا جیسی کمپنیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ فیس بک اور انسٹاگرام کے استعمال کی شرح سب سے زیادہ ہے، ہر ایک کے بالترتیب 3 بلین اور 2.3 بلین ماہانہ فعال صارفین ہیں، اس کے مقابلے میں، X جیسے پلیٹ فارم کے 400 ملین کے قریب صارفین ہیں، Telegram کے 800 ملین سے زیادہ ہیں، اور TikTok کے 2023 تک 1 بلین سے زیادہ صارفین ہیں۔اس لیے میٹا جیسی کمپنیوں کو ان لوگوں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے راستہ پیش کرنا چاہیے جن کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
15 نومبر 2023 کو ہیومن رائٹس واچ نے اپنے تحقیقی نتائج کو شیئر کرنے اور میٹا کا نقطہ نظر تلاش کرنے کے لیے میٹا سے رابطہ کیا، جس کی عکاسی اس رپورٹ میں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ہومین رائٹس واچ نے تحقیق کے دوران 7amleh، Access Now، اور Amnesty International سمیت کئی انسانی حقوق اور ڈیجیٹل حقوق کی تنظیموں کے ساتھ بھی مشاورت کی ۔
جبکہ میٹا ایک طویل عرصے سے اس بات سے آگاہ ہے کہ اس کی پالیسیاں فلسطینیوں کی آوازوں اور اس کے پلیٹ فارمز پر ان کے حامیوں کو خاموش کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ 7amleh جیسی تنظیموں نے میٹا کے فلسطین مخالف عمل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔جس پر 7 مئی 2021 کو انسانی حقوق اور ڈیجیٹل حقوق کی 30 تنظیموں نے مظاہرے کرنے والےسوشل میڈیا صارفین کو منظم طریقے سے خاموش کروانے اور فلسطینیوں کی بے دخلی پر تنقید کی ۔ اس عرصے کے دوران فیس بک نے فلسطینیوں اور ان کے مواد کو متاثر کرنے والے مسائل کو تسلیم کیا، کچھ کو “تکنیکی خرابیوں” اور انسانی غلطی سے منسوب کیا۔جبکہ ہیومن رائٹس واچ کو لکھے گئے خط میں، فیس بک نے فلسطینی کمیونٹی اور عالمی سطح پر فلسطینی معاملات پر بات کرنے والوں کی آواز کو دبانے پر معذرت کی ۔
” فلسطین آزاد ہو گا” ،”آزاد فلسطین،” ” جنگ بندکرو ” اور “نسل کشی بند کرو” جیسے نعروں کو انسٹاگرام اور فیس بک نے “سپیم” کمیونٹی گائیڈ لائنز یا غیر معیاری گائیڈلائنز کا حوالہ دیتے ہوئے ہٹا دیا تھا۔اور اس پر میٹا نے کوئی وضاحت فراہم نہیں کی۔ میٹا نے خطرناک تنظیموں اور افراد (DOI) کی پالیسی کی خلاف ورزیوں کے سیاق و سباق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ Instagram اور Facebook پر فلسطینی پرچم کے ایموجی کو سنسر کر دیا ہے۔ میٹا کے ترجمان اینڈی اسٹون کے مطابق، کمپنی فلسطینی پرچم کے ایموجی کے ساتھ تبصرےاس وقت چھپاتی ہے جب وہ “جارحانہ” سمجھے جاتے ہیں اور کمپنی کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ۔ DOI کی پالیسی کے مطابق ، حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ تاہم، فلسطینی پرچم حماس کے وجود سے پہلے ہے، اور اسٹون نے کہا کہ میٹا کے پاس فلسطینی پرچم کے ایموجی سے متعلق قوانین کو نافذ کرنے کا کوئی مختلف معیار نہیں ہے۔جبکہ میٹا نے DOIکی پالیسی کے تحت حماس کے غیر جانبدارانہ ذکر کو سنسر کیا ہے۔
اس کے علاوہ انسٹاگرام اور فیس بک نے صحافی احمد شہاب الدین جن کے دس لاکھ فلوورز ہیں اور لیٹس ٹاک فلسطین سمیت ممتاز فلسطینی شخصیات کے اکاؤنٹس کو معطل یا مستقل طور پر غیر فعال کر دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا۔
ہومین رائٹس واچ نے بتایا ہے کہ میٹا امریکی دہشت گرد ی کی فہرست پر انحصار کرتی ہے جبکہ امریکی دہشت گردی کی لسٹ کے مطابق حماس اور پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین جیسی سیاسی تحریکیں دہشت گرد تنظیمیں ہیں ۔ جبکہ اس پالیسی کے اطلاق پر میٹا کو تنقید کا سامنا ہے۔
اب انسانیت کے لیے المیہ یہ ہے کہ میٹا جو فیس بک اور انسٹاگرام کی مدر کمپنی ہے کیا اب وہ انسانی حقوق کو پرکھنے کا معیار رہے گئی ہے ۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کا انسان حقائق تک پہنچنے کے لیے انہیں سوشل ایپس پر انحصار کرتا ہے ۔ اور اگر یہ ایپس بھی مظلوم کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں گی یا سچ تک پہنچنے کے لیے دوہرا معیار برتیں گی تو انسان کے لیے انصاف کی فراہمی یا اس تک رسائی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔