
India fail in narrative war Photo: Reuters
بھارت دنیا کے سامنے اپنا مؤقف مؤثر انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکہ جہاں ایک جانب اسرائیل کی کھلی حمایت کر رہا ہے،پاکستانی جنرل عاصم منیر کا خیر مقدم کرتا ہے ، وہیں دوسری طرف بھارت سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
یہ صورتحال بھارت کے لیے ایک بڑی سفارتی ناکامی کی علامت ہے کیونکہ وہ عالمی برادری کو پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا، حالانکہ دہلی بارہا دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اسے سرحد پار دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت بیانیہ کی جنگ ہار ہو چکا ہے اور وہ عالمی منظرنامے پر اپنی پوزیشن مؤثر انداز میں نہیں منوا سکا۔
آپریشن سندور اور آپریشن رائزنگ لائن: مماثلتیں اور تضادات
بھارت کے “آپریشن سندور” اور اسرائیل کے “آپریشن رائزنگ لائن” میں کئی بنیادی سطحوں پر مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں آپریشنز مستقبل میں ممکنہ خطرات کو ختم کرنے کے لیے کیے گئے۔ تاہم، ان کے طریقہ کار اور عالمی ردعمل میں نمایاں فرق دیکھا گیا۔
بھارت نے اپنے آپریشن میں صرف دہشت گردی کے ٹھکانوں اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا، جبکہ اسرائیل نے اس سے کئی قدم آگے بڑھ کر ایران میں سیاسی و فوجی اہم شخصیات اور یہاں تک کہ جوہری سائنسدانوں کو بھی ان کے گھروں میں نشانہ بنایا، جو کہ بظاہر سویلین تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت سے ہمیشہ تحمل کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، چاہے وہ گزشتہ چالیس برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہی کیوں نہ رہا ہو۔ اس کے برعکس اسرائیل کی جانب سے بھرپور عسکری کارروائی، جسے “آپریشن رائزنگ لائن” کا نام دیا گیا ہے، کو کسی قسم کی بین الاقوامی مذمت کا سامنا نہیں۔ یہ آپریشن اپنے دسویں دن میں داخل ہو چکا ہے، اور امریکہ بھی براہ راست اس میں شریک ہو چکا ہے۔
امریکی افواج نے ایران کے حساس جوہری مراکز، جن میں فردو جیسا زیر زمین مرکز بھی شامل ہے، پر حملے کیے ہیں۔ یہ وہی عالمی طاقتیں ہیں جو بھارت کو ہمیشہ تحمل، مذاکرات اور پرامن حل کا مشورہ دیتی رہی ہیں، مگر اسرائیل کے معاملے میں خاموش تماشائی یا معاون بن جاتی ہیں۔
یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں اپنی ثالثی کو نمایاں کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں ظہرانے کی دعوت دے کر نہ صرف بھارت کو نظرانداز کیا بلکہ بھارت کے لیے اسے ایک سفارتی توہین کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات جتنے گہرے دکھائے جاتے ہیں، درحقیقت وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں بلکہ سطحی اور لین دین پر مبنی ہیں۔
جب امریکی فوجی قیادت کھلے عام پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی تسلیم کرتی ہے، تو درحقیقت وہ بھارت کے اس الزام کو رد کر رہے ہوتے ہیں جس میں بھارت پاکستان پر ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام دیتا آرہا ہے ۔ بھارت، مسلسل عالمی برادری کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کے خلاف ٹھوس کارروائی کی جائے، لیکن اب تک یہ کوششیں ثمر آور ثابت نہیں ہو سکیں اور یہ بیانیہ کی جنگ میں بھارت کی ناکامی اور تصوراتی محاذ پر کمزوری کو واضح کرتا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ خود بھارت کا حد سے زیادہ جذباتی اور غیر ذمہ دار ا میڈیا بھی شامل ہے۔
بین الاقوامی میڈیا اس تاثر کی توثیق کر رہا ہے کہ بھارت اپنے بیانیے کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، کچھ بھارتی میڈیا اداروں نے ایک “متوازی حقیقت” تشکیل دی، جہاں دفاعی ماہرین نے مبالغہ آمیز بیانیہ پیش کیا۔ فرانسیسی اخبار ایل اوپنین نے بھی
اس امر کی نشاندہی کی کہ اگرچہ بھارت نے عسکری سطح پر برتری حاصل کی، مگر وہ معلوماتی جنگ میں مکمل طور پر ناکام رہا، اور اس کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا اور عالمی بیانیہ اپنے حق میں تبدیل کر لیا۔
اپنے مؤقف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے بھارت نے بھرپور سفارتی مہم بھی چلائی۔ آل پارٹی پارلیمانی وفود کو دنیا بھر کے 33 دارالحکومتوں، بشمول یورپی یونین کے صدر دفتر برسلز، بھیجا گیا۔ ان وفود نے سرحد پار دہشت گردی اور ’آپریشن سندور‘ کے بعد بھارت کے دفاعی اقدامات کو جائز اور ضروری قرار دینے کی کوشش کی۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے جب یہ کوشش کی تب بہت دیر ہوچکی تھی اور عالمی رائے عامہ پر اثر ڈالنے کا موقع ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
امریکی جریدےفارن افیئرزمیں ایشلے جے ٹیلس کی جانب سے شائع ہونے والا تبصرہ بھارت کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی توقعات اور عزائم کو واضح طور پر رد کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ تنقید غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ بھارت نے متعدد مواقع پر امریکہ کی خارجہ پالیسی یا اس کے مفادات سے ہم آہنگ ہونے سے گریز کیا۔
چین کی سہ جہتی جنگی حکمت عملی: دنیا کو قابو میں رکھنے کا نیا ماڈل؟
دنیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی اور سیاسی منظرنامے میں جنگ صرف ہتھیاروں تک محدود نہیں رہی۔ جدید دور میں طاقتور ممالک نے جنگ کے نئے طریقے اختیار کر لیے ہیں جن میں سب سے نمایاں ادراک، نفسیات اور قانون پر مبنی حکمت عملی ہے۔ اس کی واضح مثال چین کی مشہور تھری وار فیئر اسٹریٹجی یا تین جہتی جنگی حکمت عملی ہے۔
یہ حکمت عملی کسی ایک واقعے کے ردعمل تک محدود نہیں بلکہ ایک طویل المدتی اور منصوبہ بند پالیسی پر مبنی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ وقت کے ساتھ اپنے مخالفین کو کمزور کیا جائے اور عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ڈھالا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ملک اس میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اعلیٰ سطح پر ایک واضح پالیسی ترتیب دینی ہو گی، اور پھر ملک کے مختلف اداروں کو اس پالیسی پر منظم انداز میں عملدرآمد کی ذمہ داری سونپنی ہو گی۔
اس حکمت عملی کا پہلا پہلو معلوماتی جنگ ہے۔ جس میں ریاستی میڈیا، سفارتی چینلز اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے ایسا بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے جو چین کے مفادات کے مطابق ہو، اور مخالفین کی ساکھ کو متاثر کرے۔
مثال کے طور پر، 2016 میں جنوبی بحیرہ چین کے حوالے سے بین الاقوامی ثالثی عدالت کے فیصلے کو چین نے اپنے سرکاری میڈیا کے ذریعے “مذاق” قرار دے کر اس کی اہمیت گھٹا دی، اور عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا۔ چین کی کوشش رہی کہ وہ خود کو ایک ذمہ دار اور قانون پسند ملک کے طور پر پیش کرے ۔
نفسیاتی جنگ: خوف اور شک کے ذریعے کنٹرول
سائیکلوجیکل وار فیئر یا نفسیاتی جنگ : اس میں غلط معلومات، دھمکیاں، اور تاریخی حوالوں کا استعمال کر کے مخالفین کو غیر یقینی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ جیسا کہ 2017 میں ڈوکلام تنازع کے دوران ، چین نے بھارت کو 1962 کی جنگ کی یاد دلا کر دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ اگرچہ بھارت نے اس دباؤ کو برداشت کیا، مگر چین نے اپنی طاقت کا تاثر دے کر عوامی جذبات اور بھارتی قیادت کے ارادوں پر اثر انداز ہونے میں بھی کامیاب رہا۔
قانونی جنگ: قانون کا ہتھیار کے طور پر استعمال
تیسرا اور سب سے اہم پہلو لیگل وار فیئر یا قانونی جنگ ہے، جس میں بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کا سہارا لے کر چین اپنے اقدامات کو قانونی جواز دینے کی کوشش کرتا ہے۔
اسی تناظر میں، چین نے جنوبی بحیرہ چین کے تنازعے میں ثالثی عدالت کے فیصلے کو رد کر دیا، مگر خود کو “بین الاقوامی قانون کا محافظ” ظاہر کیا۔ اس کا مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا تھا کہ چین قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ اس کی ترجمانی کر رہا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ چین کی یہ حکمت عملی ایک ایسا ماڈل ہے جسے دیگر طاقتور ممالک بھی اپنا سکتے ہیں۔ صرف میدانِ جنگ میں ہی کامیابی کافی نہیں، اگر کوئی ملک رائے عامہ، سفارتکاری، اور قانونی نظام پر اثر انداز ہو جائے، تو وہ بغیر گولی چلائے بھی اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔
پاکستان، بھارت اور دیگر علاقائی طاقتوں کے لیے یہ ایک سبق ہے کہ صرف دفاعی طاقت نہیں بلکہ مربوط بیانیہ، قانونی پوزیشن اور عوامی تاثربھی کسی ملک کی کامیابی کے لیے لازم ہوتے جا رہے ہیں۔
جنرل منوج مکند نروانے، سابق بھارتی آرمی چیف، کا کہنا ہے کہ بھارت کو اب ایک جامع، طویل المدتی اور حقیقت پسندانہ حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ نہ صرف اپنے مؤقف کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکے بلکہ معلوماتی جنگ میں اپنی ساکھ کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے میں بھارت کی ناکامی اس بات کی مظہر ہے کہ صرف عسکری ردعمل کافی نہیں، بلکہ ایک مضبوط ادراکی، قانونی اور نفسیاتی حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ ایسی حکمت عملی مرتب کرے جو فوجی تیاری، معلوماتی صلاحیت، اور قانونی پوزیشن کو یکجا کرے۔ اس میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں:۔
۱۔ سائبر اور ،معلوماتی صلاحیتوں کو جدید بنانا ، ۲۔ بین الاقاومی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے دعوؤں کو مضبوط کرنا ،۳۔معتبر میڈیا کے ذریعے عالمی بیانیے میں اثرو رسوخ بڑھانا
اس کے علاوہ بھارت کو اپنی مسلح افواج اور عوام کے اندر نفسیاتی مضبوطی پیدا کرنی ہوگی۔
نروانے کا کہنا ہے کہ بھارت کی عوام بعض اوقات شدید جذباتیت کا شکار ہو جاتی ہے، جو کہ دشمنوں کے لیے آسان ہدف بن سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ تربیتی پروگراموں کے ذریعے عوام کو “معلوماتی جنگ” اور “نفسیاتی دباؤ” سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جائے۔
بین الاقوامی سطح پر بھارت کو اپنے سفارت کاروں، دفاعی نمائندوں اور قانونی ماہرین کو ایسی تربیت دینی چاہیے کہ وہ عالمی قوانین اور فورمز پر مؤثر انداز میں بھارت کا دفاع کر سکیں۔
میڈیا کی ذمہ داری اور موجودہ چیلنجز
’آپریشن سندور‘ کے دوران بھارتی میڈیا نے حکومت کے مؤقف کو عوام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، تاہم بعض حلقوں کی جانب سے اسے بڑھتی جذباتیت اور غلط اطلاعات کے پھیلاؤ کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا۔
نروانے کے مطابق، ایسی رپورٹنگ اگرچہ بھارتی سامعین کے لیے پرکشش ہو سکتی ہے، لیکن عالمی سطح پر بھارت کی پوزیشن کمزور کر دیتی ہے۔
معلوماتی جنگ کے جدید دور میں ضروری ہے کہ ہر طبقے کے لیے الگ بیانیہ اور مخصوص ذرائع ابلاغ طے کئے جائیں۔
دی پرنٹ سے ماخوذ
ترجمہ :معصومہ زہرا