بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ مبینہ ظلم و ستم کے معاملے پر عدالت سے طالبان کے دو اہم رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری طلب کر رہے ہیں۔ درخواست کردہ وارنٹس میں طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی شامل ہیں۔ پراسیکیوٹر نے طالبان رہنماؤں پر مختلف حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں، جن میں خواتین کی آزاد نقل و حرکت، اظہار رائے، تعلیم، اور آزاد اسمبلی کے حق کی پامالی شامل ہے۔ مزید برآں، درخواست میں قتل، قید، تشدد، عصمت دری، جبری گمشدگی، اور غیر انسانی کارروائیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
کریم خان کا کہنا ہے کہ ان کے دفتر نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ دونوں افراد افغانستان میں “صنفی بنیادوں پر ظلم و ستم” جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں۔ تاہم یہ فیصلہ عدالت کے جج کریں گے کہ آیا وارنٹ جاری کیے جائیں یا نہیں۔ واضح رہے کہ یہ اس نوعیت کی پہلی کارروائی ہوگی، اور توقع ہے کہ دیگر طالبان رہنماؤں کے خلاف بھی وارنٹ گرفتاری کی درخواستیں جلد دائر کی جائیں گی۔
کریم خان نے کہا کہ خواتین کے خلاف ہونے والے ایسے گھناؤنے جرائم پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ افغان خواتین کو طالبان کی جانب سے مسلسل ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اورطالبان ان افراد کو بھی نشانہ بناتے ہیں جنہیں وہ خواتین کے حقوق کا حمایتی سمجھتے ہیں۔
Photo-AP
دوسری جانب، طالبان کی وزارت خارجہ اور ترجمان نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کئی سالوں کی تحقیقات کا نتیجہ ہے اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے اس کو افغان عوام کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ تاہم، اگر وارنٹ جاری ہو بھی جائیں تو ان کا اثر زیادہ تر علامتی ہوگا کیونکہ جن دو طالبان رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کی گئی ہے انہوں نے حالیہ برسوں میں کوئی اہم بین الاقوامی سفر نہیں کیا۔ مزید یہ کہ وہ ممالک جن میں طالبان رہنما سفر کرسکتے ہیں انہوں نے آئی سی سی کی بنیادی دستاویز (روم اسٹیچوٹ) پر دستخط نہیں کیے ہیں، اس لیے وہ طالبان رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے پابند نہیں ہیں۔
یہ صورت حال اس وارنٹ کی عملی افادیت پر سوالات اٹھاتی ہے، لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایک اہم پیغام ہے کہ عالمی سطح پر ظلم و ستم برداشت نہیں کیا جائے گا۔
طالبان حکومت کی بین الاقوامی تنہائی مزید بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اسے کسی بھی حکومت نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ خواتین کے ساتھ طالبان کے سخت رویے نے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
اس کے علاوہ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان پناہ گزینوں کے لیے امریکی پروگرام کو معطل کر دیا، جس سے خاص طور پر خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے جو کہتی ہیں کہ افغانستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
دوسری جانب طالبان حکومت نے خواتین کی تعلیم اور عوامی زندگی میں شرکت پر مزید سخت پابندیاں عائد کردی ہیں۔ جن میں خواتین کے پارکوں میں جانے، مرد رشتہ دار کے بغیر طویل سفر کرنے اور نرس یا دائی کے طور پر کام کرنے پر پابندیاں شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات افغانستان کے نظامِ صحت میں موجود بحران کو مزید سنگین بنادیں گے۔
طالبان حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور حکومت میں خواتین کی زندگیوں میں بہتری آئی ہے۔ طالبان رہنما اخندزادہ نے 2023 میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ خواتین “آرام دہ” زندگی گزاریں۔ لیکن طالبان حکومت کے کچھ ارکان بند دروازوں کے پیچھے ان پابندیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ تاہم، ان میں سے کسی نے بھی اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔
خواتین کے حقوق پر یہ بڑھتی ہوئی پابندیاں نہ صرف طالبان حکومت کی بین الاقوامی تنہائی میں اضافہ کر رہی ہیں بلکہ افغانستان میں موجودہ انسانی بحران کو بھی مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔