پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی کوشش کروں گا،مولانا فضل الرحمان
اسلام آباد (اردوانٹرنیشنل)اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ پر امن تعلقات چاہتے ہیں اور افغانستان میں استحکام پاکستان کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے مجھے دورے کی دعوت دی ہے اور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی کوشش کروں گا۔
جے یو آئی کے سربراہ نے مختلف امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فضا کیوں بنائی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو رہی بلکہ اس الیکشن میں انہیں مزید ابھارنے پر کام ہو رہا ہے، ہمیں چیزوں کو اس پہلو سے بھی دیکھنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عام انتخابات میں تمام امیدواروں کو موقع ملنا چاہیے اور جمعیت علمائے اسلام انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ زیادتی نہیں ہو رہی بلکہ اُن کو نمایاں کیا جا رہا ہے، تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، عدالتی مارشل لاء کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ معاہدہ دارفر ایک ناجائز معاہدہ تھا، قائد اعظم نے بھی مسترد کیا، افسوس اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ایک حکومت بنائی گئی، ہم اس معاملے پر رکاوٹ رہے، میڈیا پر ہم نے ان کی زبانیں روک لیں، مسئلہ فلسطین کو اصلی مؤقف کے ساتھ فلسطینیوں کی جدوجہد نے زندہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ آج عالمی شخصیات کے ساتھ رابطوں کےلیے حماس مرکز بن گیا ہے، فلسطین کی دفاعی تحریک کی حمایت کے ساتھ اسے جائز جنگ سمجھتا ہوں، بدقسمتی سے نگران وزیراعظم کو سیاست کی اب ج د کا بھی علم نہیں، نگران وزیراعظم کس طرح پنڈورا باکس کھول سکتے ہیں؟ انوار الحق کاکڑ کی بات اسرائیل کو تسلیم کرنے کی دلیل نہیں بن سکتی۔
ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کا ڈی این اے یہی ہے کہ ہم دو ریاستی حل کو نہیں مانتے، اسرائیل جنگی مجرم ہے، دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے، اسرائیل فلسطینی بچوں کے قتل میں ملوث ہے، اسرائیل کا خیال تھا کہ فلسطینی دفاعی تحریک مرعوب ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا اور اسرائیل کی دفاعی قوت و تکبر مجاہدین نے خاک میں ملا دیا ہے۔
ملکی حالات پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ فاٹا کا عام آدمی پریشان ہے ہم صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ ہیں یا فاٹا ہیں؟ فاٹا کو 7 سال کے بعد بھی 100 ارب کا وعدہ پورا نہیں ہوسکا، اس وقت انضمام والے علاقوں میں عدالتیں ہیں نہ لینڈ ریکارڈ، ہمارا ہدف ہوگا کہ ہم فاٹا کے لوگوں کے مسائل حل کرسکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے نکالا، آج پھرڈیفالٹ کا خطرہ ہے۔