Saturday, October 5, 2024
HomeTop Newsرپورٹ:افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگ حوالے کردیں، بات ختم...

رپورٹ:افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگ حوالے کردیں، بات ختم ہوجائے گی، آصف درانی

افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگ حوالے کردیں، بات ختم ہوجائے گی: آصف درانی

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان آصف درانی کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکمرانوں کو افغانستان کے شدت پسندوں کی پراکسی جنگ کا محور بننے کے بارے میں خدشات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

انڈیپینڈنٹ اردو” کوخصوصی انٹرویو میں آصف درانی کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اپنے ملک میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افراد کو اسلام آباد کے حوالے کر دیں تو مسئلہ ختم ہو جائے گا۔

ہمسایہ ملک میں طالبان تحریک کی دوسری حکومت کے تین سال مکمل ہونے پرسینیئر سفارت کار آصف درانی کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں جو (ٹی ٹی پی کے) لوگ رہ رہے ہیں انہیں ان کے خلاف اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ان کو ہمارے حوالے کر دیں، بات ختم ہو جائے گی۔‘

افغان عنوری حکومت کے ایک بیان کے مطابق افغان کیلنڈر ہجری شمسی کے مطابق 24 اسد (بمطابق 14 اگست بروز بدھ) کو ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ بیرونی قوتوں کی شکست اور اپنی فتح کی تیسری سالگرہ منا رہی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ حکومت پاکستان افغانستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ ٹی ٹی پی ملک میں تمام حملے وہاں سے کرتی ہے؟ آصف درانی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ تمام حملے وہاں سے ہوتے ہیں۔ ’ہاں ہم تو افغان عبوری حکومت کو ان حملوں کے بارے میں، جن میں افغان باشندے شامل ہوں یاد دلاتے ہیں، ان کی وہاں پناہ گاہیں ہیں، جو اسلحہ وہ لے کر پھر رہے ہیں۔ خود افغانستان کے اندر افغان اسلحہ لے کر نہیں چل سکتے لیکن ٹی ٹی پی والے لے کر پھر رہے ہیں تو اس سے شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت کیا کرنا چاہتی ہے۔‘

آصف درانی افغان عبوری حکومت کے ساتھ تعلقات میں ٹی ٹی پی کی وجہ سے کشیدگی کو تناؤ نہیں مانتے، البتہ کہتے ہیں کہ بہرحال ایک عمل ہے جو ان کے ساتھ جاری ہے۔ ’ہمیں امید ہے اور ان کی جانب سے بھی یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں تو ان پر عمل درآمد ہوگا۔‘

طالبان کی دوسری حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر آصف درانی نے انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان کے ساتھ ہمارا تاریخی رشتہ ہے اور وہ چل رہا ہے، چاہے کوئی بھی حکومت آجائے۔ اب طالبان کی حکومت آگئی ہے تین سال پورے ہوگئے ہیں۔ انہیں مبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ وطن میں امن اور یگانگی اور لوگوں کے حقوق کو پورا کریں گے۔‘

حقوق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں چاہے مذہبی یا نسلی اقلیتوں کے حقوق ہوں یا خواتین کے تعلیم اور ملازمت کے۔ ’اس مسئلے پر پاکستان نہ صرف اپنی سطح پر بلکہ او آئی سی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اتفاق رائے کا حصہ ہے۔‘

انہوں نے جنگ سے تباہ حال ہمسایہ ملک میں تین سال سے قیام امن کو پاکستان کے لیے اہم قرار دیا۔ ’وہاں ماضی کے مقابلے میں امن ہے۔ اگرچہ ٹی ٹی پی ہمارے لیے ایک وجہ تشویش ہے لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھیں گے تو افغانستان کا امن ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ اس حد تک تو اس پر اطمینان ہونا چاہیے۔ بہتری کی گنجائش تاہم ہر وقت رہتی ہے۔‘

پاکستانی طالبان جیسے مسائل کے حل میں بقول ان کے وقت لگتا ہے۔ ’ٹی ٹی پی ایک غیرریاستی عنصر ہے۔ کوئی بھی ایسا گروہ ہو، اسے طاقت کے زور پر ایجنڈا ڈکٹیٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔

’دوسرا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئین پاکستان کو نہیں مانیں گے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس کی کون سی شق غیر اسلامی ہے۔ انہیں قانون کا احترام اور اپنے جرائم کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا، خاص کر پشاور سکول کے بچوں کو مارنے پر۔ یہ عمل، جب اس طرح کی حرکت ہوتی ہے تو دنیا بھر میں اسی طرح چلتے ہیں۔ تھوڑا وقت لگتا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی سے خود نمٹنا نہیں چاہتی یا اس کی صلاحیت نہیں رکھتی؟ آصف درانی کا کہنا تھا کہ یہ سوال تو بہتر ہوگا کہ ان سے پوچھا جائے۔ ’اگر وہ اپنے آپ کو عبوری حکومت سمجھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ بااقتدار ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کنٹرول ہے تو یہ کنٹرول ٹی ٹی پی پر بھی اتنا ہی ہونا چاہیے۔‘

RELATED ARTICLES

Most Popular

Recent Comments