اقتدار کی خواہش اور طاقت کا حصول ہی جنگ کی اصل وجہ
( تحریر: آمنہ امان )اقتدار کی خواہش اور طاقت کا حصول ہی جنگ کی اصل وجہ ہوتا ہے اپنی بات اور اپنے آپ کو صحیح منوانا اور دوسرے کو مطیع کرنا یہی ہابیل قابیل کے درمیان لڑائی کی اصل وجہ تھی اور یہی آج تک کی ہر جنگ کی وجہ ہے۔
اسلحے اور ٹیکنالوجی کی نت نئی خوفناک ایجادات کے بعد اب ممالک کو کمزور کرنے کے لیے جنگ کی اک نئی قسم سامنے آئی ہے ففتھ جنریشن وار ۔محض افواہیں اڑائیں اور جھوٹ اتنی شدت سے پھیلا دیں کہ سچ لگنے لگے اس کا مقصد کسی ملک کی عوام کو تقسیم کرنا اور اتنی نفرتیں پھیلا دینا ہے کہ جب اتحاد درکار ہو وہ اک دوسرے پر الزامات میں مصروف ہوں۔ فرقہ واریت لسانیت اور صوباٸیت کا فروغ اس کے اہم اہداف ہوتے ہیں اور اداروں کے مابین نفرت پھیلانا بھی اس جنگ کا مقصد گویا ملک کے جڑیں اتنی کھوکھلی کر دی جائیں کہ اس کا انتظامی ڈھانچہ گرانے کے لیے اک ہلکا سا دھکا ہی کافی رہے شام لیبیا اور عراق اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔
جنگیں لڑنے اور اس سے بچنے کے لیے ہر ملک دفاعی بجٹ مختص کرتا ہے اور اگر زرا بھی دہیان دیں تو دفاعی بجٹ بذات خود بہت سی جنگوں اور بغاوتوں کو جنم دیتا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ کی حامل سوکالڈ سوپر پاورز کے سالانہ بجٹ کا اور خراجات کا تقابل کریں تو انسان ورط حیرت میں گم ہوجاتا ہے کہ یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
امریکہ یا چائنہ کا دفاعی بجٹ ہی دیکھ لیجیے کیا اس میں لاکھوں کی آرمی کی تنخواہیں یونیفارمز کھانا پینا رہائش پینشنز دفاعی آلات کی خریداری مشینری کی مرمت پیٹرول اور ٹریننگ کے اخراجات ہی پورے ہو جائیں تو بہت ہے جبکہ اک جنگی بحری بیڑا مع الات خریدیں تو سالانہ بجٹ بہت کم پڑ جاۓ تو یہ سارے باقی اخراجات کیا پورا سال روکے رکھے جاتے ہیں؟ ابدوزیں لیزر گنز حساس سینسرز کے لیس جوتے ہیلمٹ اور لباس کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں ہوتی ہے پھر یہ اخراجات کیسے پورے کیے جاتے ہیں ؟
تو چلیے دیکھتے ہیں کچھ ہوشربا انکشافات جن سے اندازہ ہو کہ سپر پاورز اپنے اخراجات کیسے پورے کرتیں ہیں۔ دنیا میں منشیات کی چالیس فیصد پیداوار برما یعنی میانمر میں ہوتی ہے یہیں تیار ہوتی یہیں سے سپلائی کی جاتی ہے۔دوسرا پیداواری مقام افغانستان ہے ۔ جہاں سے دو سال قبل بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی ہیروٸین کی کھیپ منگوائی اور مندرا پورٹ جو مودی کے دوست ایڈانی کی ملکیت ہے وہاں سے طالبان کی انٹرپول کو مخبری پر یہ ہیروئن بظاہر پکڑی گئی مگر پھر گم ہوگٸ۔ منشیات کا تیسرا بڑا مرکز میکسیکو اور پھر ٹیکساس۔ ان علاقوں میں کبھی امن نہیں ہوا عوام کی حالت خستہ ہے غربت اور خانہ جنگی نے عوام سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی ہیں ۔
یہی حال پٹرولیم مصنوعات کے قدرتی وسائل رکھنے والے ممالک کا ہے۔ وہی شام عراق ہو یا تنزانیہ ان کے خزانے سے سپر پاورز خوشحال اور وہ خود تباہ حال ۔افریقی ممالک کا تو جرم بالکل ناقابل معافی ہے کیونکہ ان کی زمین سونا اور ہیرے اگلتی ہے لہذا خانہ جنگی اور بھوک افلاس ان کا مقدر ٹھہرا دٸیے گۓ۔ اب منشیات کی سمگلنگ ہو یا سونا ہیروں اور پیٹرول کی لوٹ مار ان سب کے پیچھے آپ کو سپر پاورز کی ایجنسیز کا ہاتھ ملے گا اور اس ملک کی عوام کے ہاتھوں میں انہی سپر پاورز کا بنایا اسلحہ نظر أۓ گا۔
کسی بھی ملک میں کوئی بھی قیمتی معدنیات ہوں یا اس کی جغرافیاٸ اہمیت ہووہاں جنگ یا بغاوت ضرور ہوگی اور اسلحہ سپر پاورز کا دکھتا ہے۔ یعنی اک پنتھ دو کاج۔ آپس میں لڑوا کر اسلحہ بیچ کر پیسے بناؤ اور ساتھ وہاں کے وساٸل بھی لوٹو۔ تو جناب یوں بناۓ جاتے ہیں بحری بیڑے جدید سیٹیلائٹ اور ابدوزوں کے ذخیرے۔
ایسے میں پاکستان جیسا ملک جسے اپنا وجود برقرار رکھنے کیلیے مضبوط دفاع کی ضرورت ہے اپنے سے پانچ گنا بڑے ملک جس کا دفاعی بجٹ بھی سات گنا زیادہ ہے اس کےناپاک عزائم اور جارحیت سے بچنے کیلیے بھاری بجٹ درکار ہے جبکہ ملکی معیشت کا حجم بھی کم ہے۔ ملکی وسائل کم اور ضروریات زیادہ چنانچہ پاک فوج اپنا بجٹ دیگر ممالک کی طرح بڑھانے کی بجاۓ کم کرتی جارہی ہے۔ اس سال بھی دفاعی بجٹ میں مزید کمی کی گئی ہے۔ یہ بجٹ اتنا کم ہے کہ فوج کی تنخواہوں راشنز اسلحہ اور پنشنز وغیرہ کے اخراجات کیلیے بھی ناکافی ہے۔ جبکہ فوج دیگر کاروبار سے حاصل آمدن پر اسی بجٹ سے قدرے کم واپس خزانے میں بطور ٹیکس جمع کروا دیتی ہے۔ جبکہ ریسرچ سینٹرز , سیٹلاٸٹ سسٹم , ڈیفنس سسٹم ، بحری بیڑے اور آبدوزیں وغیرہ اس بجٹ میں خریدنا ناممکن ہے.
اب ایسے میں پاک ارمی حلال طریقے سے بیکریز سیمنٹ اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنا کر بجٹ کی کمی پورا کرنا چاہے تو اس کے خلاف پروپیگنڈا آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اب سوال تو یہ ہے کہ بھارت’ امریکہ کی طرح پورے پورے ملک تباہی اور بربادی کی آگ میں جھونک کر انسانیت کے علمبردار بن جانا اور پھر سپر پاور کہلانا کیوں؟