Friday, January 24, 2025
HomeEducationدیہی خواتین کی تعلیم اور تولیدی صحت: بڑھتی آبادی کے چیلنجز

دیہی خواتین کی تعلیم اور تولیدی صحت: بڑھتی آبادی کے چیلنجز

Published on

معصومہ زہرا
اسلام آباد

پاکستان کی آبادی ایک اندازے کے مطابق چوبیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے اور آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں مقیم ہے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ قومی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ حصہ دیہی علاقوں میں قیام پزیر ہے۔ شرح خواندگی کی بات کی جائے تو پاکستان کی شرح خواندگی تقریبا ساٹھ فیصد ہے۔شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں کی شرح خواندگی کم ہے اور اسی طرح مردوں کے مقابلے میں خواتین کی شرح خواندگی کم ہے۔ تعلیم کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ انسانی صلاحیتوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور معاشرے میں علم، ہنر اور تخلیقی طاقت کے ذریعے اقتصادی ترقی کو تیز کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشی ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہے ۔ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی اگر شرح خواندگی کا مطالعہ کیا جائے تو وہ تقریباَ ۱۰۰ فیصد ہے اور یہی ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کا راز ہے جوں جوں کسی ملک میں شرح خواندگی بڑھے گی وہ ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔

پاکستان میں اگر خواتین کی شرح خواندگی اور پھر دیہی علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی کی بات کی جائے تو سخت مایوسی ہوتی ہے کیونکہ دو درازعلاقوں میں خواتین کو تعلیم جیسی سہولیات بمشکل ہی میسر آتی ہیں اور اگر حکومت کی طرف سے کوئی کوشش کی جائے تو وہ صرف اسکول کی تعلیم تک ہی میسر ہوتی ہیں ، چار پانچ دیہاتوں میں ایک ہی ہائی اسکول ہوتا ہے ورنہ ایک گاؤں میں لڑکیوں کے لیے پرائمری یا مڈل اسکول بنایا جاتا اس کے باوجود بچیوں کی اکثریت اسکولوں سے باہر ہوتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دیہاتوں میں آبادی کی اکثریت غربت یا خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ، جس وجہ سے مرد اورخواتین دونوں مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور بچوں کی تعداد ا زیادہ تر پانچ سات کے درمیان ہوتی ہے اور ایسے میں لڑکیوں خاص کر گھر کی بڑی بچی پر چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے ۔

اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ تو گئے وقتوں کی بات ہے اب ایسے کہاں ہوتا ہے تو بالکل آپ کا اندازہ غلط ہے دیہی علاقوں میں آج بھی یہی روش ہے ماں باپ کم سے کم پانچ چھ بچے پیدا کرتے ہیں اور پھر جو بچی ان میں ذرا بڑی ہوتی ہے انہیں اس کے ذمے لگا دیا جاتا ہے اس چکر میں اس بچی کا اپنا بچپن ، پڑھائی کھلونے اور معصومیت کہیں کھو جاتے ہیں وہ خود میں ایک ماں بن جاتی ہے ۔

گاؤں میں کیونکہ اکثر شادیاں خاندان کے اندر ہی کی جاتی ہیں اور یہ سوچے سمجھے بغیر کی جاتی ہیں کہ لڑکا کوئی کام کرتا ہے یا نہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے شادی کے بعد جب دو تین بچے ہوجاتے ہیں تو وہ خاتون خود گاؤں میں ہی مزدوری جیسے کھیتی باڑی ، سینا پرونا اور جانور پالنا شروع کردیتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے جس کا سارے کا سارا بوجھ ایک بچی کے کندھوں پہ آجاتا ہے ۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ایک خاتون ، خاتون کیا ستائیس اٹھائیس برس کی ایک لڑکی ہمارے گھر آئی جس کے پانچ بچے ہیں ویسے آٹھ تھے مگر زچگی میں بہت سے مسائل کی وجہ سے باقی تین اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ اس کا بھی یہی رونا تھا کہ میاں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتا اس لیے اس نے اپنی آٹھ سالہ بیٹی جو اس کے ساتھ ہی ہمارے گھر آئی تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ہی دن ہیں چلی جائے اسکول کیونکہ آگے میں نے اس پہ بڑی ذمہ داریاں ڈالنی ہیں اور خود محنت مزدوری کروں گی یہ بہن بھائیوں کو سنبھالے گی ۔

آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہر حکومت کے لیے ایک چیلنج رہا ہے اور ہر آنے والی حکومت اس مسئلے پر غوروفکر کرتی ہے اسی مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کے دیہاتوں میں پاپولیشن ویلفیئر سینٹرز(فلاحی مرکز بہبود آبادی) قائم کیے گئے ہیں ۔ جن کی سربراہ خواتین میڈیکل آفیسرز ہیں ۔ زچہ و بچہ دونوں کی صحت ان فلاحی مراکز کی اولین ترجیح ہوتی ہے اس کے علاوہ ان مراکز میں مفت ادویات کا انتظام بھی موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ، ان فلاحی مراکز کا مقصد خواتین کی تولیدی صحت کے متعلق ان علاقوں میں لوگوں کے اندر شعور اور آگاہی پھیلانا ہے ۔

لیکن ان سب اقدامات کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دنیا میں خواتین کی جنسی اور تولیدی صحت کے حقوق میں بڑی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے لیکن آج بھی لاکھوں خواتین ان حقوق سے محروم ہیں ۔ یواین ایف پی اے(یونائیٹڈ نیشننز پاپولیشن فنڈ) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر۵۰ منٹ میں ایک خاتون زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کرجاتی ہے۔ پاکستان میں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو اس حوالے سے کوئی اختیار نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنی صحت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی تولیدی صحت کے حوالے سے کوئی فیصلہ لے سکیں ۔اس کے علاوہ خواتین کی شرح خواندگی میں افسوس ناک حد تک کمی ،معاشرتی اور مذہبی دباؤ اس مسئلے کے حل میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ دنیا میں بہت سے اسلامی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جیسے انڈونیشیا ، ایران، مصر اور بنگلہ دیش نے بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر قابو پایا ہے اور اس میں ان ممالک کے مذہبی رہنماؤں نے بھی لوگوں کو کافی شعور اور آگاہی پہنچائی ہے ۔ خواتین کی تولیدی صحت پر آگاہی نہ صرف خواتین کے حقوق کے عالمی ادارے بلکہ ہمارا مذہب بھی اس کا درس دیتا ہے کہ صحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی ایک خاندان تشکیل دیا جائے۔

Latest articles

آئی سی سی کا ٹیسٹ ٹیم آف دی ایئر 2024 کا اعلان،پاکستان کا ایک بھی کھلاڑی شامل نہیں

اردوانٹرنیشنل (اسپورٹس ڈیسک) تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے جمعہ...

صائم ایوب آئی سی سی ون ڈے ٹیم آف دی ایئر 2024 میں شامل

اردوانٹرنیشنل (اسپورٹس ڈیسک) تفصیلات کے مطابق پاکستانی اسٹار اوپننگ بلے باز صائم ایوب کو...

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا نہ کرکے امریکا ہمیں ہماری اوقات دکھا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق نے...

چارلی ہیبڈو حملہ کیس: فرانس کی عدالت سے 6 پاکستانیوں کو 3 سے 30 سال تک قید کی سزا

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) پیرس کی ایک عدالت نے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے...

More like this

آئی سی سی کا ٹیسٹ ٹیم آف دی ایئر 2024 کا اعلان،پاکستان کا ایک بھی کھلاڑی شامل نہیں

اردوانٹرنیشنل (اسپورٹس ڈیسک) تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے جمعہ...

صائم ایوب آئی سی سی ون ڈے ٹیم آف دی ایئر 2024 میں شامل

اردوانٹرنیشنل (اسپورٹس ڈیسک) تفصیلات کے مطابق پاکستانی اسٹار اوپننگ بلے باز صائم ایوب کو...

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا نہ کرکے امریکا ہمیں ہماری اوقات دکھا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق نے...