بلوچ یکجہتی لانگ مارچ،حکومتی کمیٹی مذاکرات، گرفتار خواتین کی رہائی کا حکم
اسلام آباد (اردو انٹرنیشنل) اسلام آباد میں موجود بلوچ یکجہتی کمیٹی مارچ کے شرکا سے نگران وفاقی وزرا پر مشتمل کمیٹی نے مذاکرات کے بعد تمام تحفظات دور کرنےکی یقین دہانی کرائی جس کے بعد گرفتار ہونے والی احتجاجی خواتین کی فوری رہائی کا حکم دے دیا گیا۔
اسلام آباد میں پولیس کریک ڈاؤن کے معاملے پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سربراہی فواد حسن فواد نے کی،کمیٹی میں وفاقی وزرا جمال شاہ اور وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی بھی شامل تھے۔ بلوچ خواتین کو صدابہار بس پر بٹھا کر کوئٹہ روانہ کرنے کی تیاری مکمل ہے۔ 52خواتین ابھی تک زیر حراست ہیں۔
اسلام آباد پولیس سٹیشن سے بلوچ خواتین کی زبردستی منتقلی پر، رہنما انسانی حقوق فرزانہ باری نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے غم و غصے کا اظہار کیا.
سینئر صحافی حامد میر نے بلوچ خواتین کی زبردستی منتقلی پر آئی جی اسلام آباد پولیس کو جھوٹا قرار دے دیا.
مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر فواد حسن فواد نے بتایا کہ خواتین اور بچوں کو رہا کرنے کا کہا گیا ہے، کچھ لوگوں کی شناخت ہونا باقی ہے، آئی جی سے کہا کہ شناخت میں تاخیر نہ کی جائے، ایف آئی آر میں جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے ان کا معاملہ عدالت میں ہے، ایف آئی آر میں نامزد افراد تعداد میں بہت کم ہیں، 90 فیصد مرد حضرات کو رہا کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ لانگ مارچ کےشرکاکی گرفتاریوں اور کریک ڈاون کےخلاف درخواست کی سماعت میں آئی جی اسلام آباد نےکہا کہ مظاہرین کے پاس ڈنڈے تھے اور انہوں نے پتھرمارے جس سےکچھ لوگ زخمی ہوئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیےکہ یہ پاکستانی شہری ہیں اور احتجاج تو اُن کا آئینی حق ہے، کسی نے کوئی دہشت گردی تو نہیں کی، عدالت نے آئی جی کو حکم دیا کہ کل تک بتائیں کتنے افراد جوڈیشل ہوئے،کتنے گرفتار ہیں اور کتنے رہا ہوئے۔
جب کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے بلوچ رہنما مہارنگ بلوچ سمیت33 بلوچ مظاہرین کو ضمانت پر رہا کرنےکا حکم دے دیا۔پولیس نے 8 مظاہرین کے جسمانی ریمانڈ، اور 25 کی شناخت پریڈ کی استدعا کی تھی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین پر پولیس تشدد اور کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا گیا ہےکہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر واٹرکینن اور لاٹھی چارج کیا گیا، متعدد خواتین مظاہرین کو گرفتارکرکے مرد رشتہ داروں سے الگ کیا گیا۔ایچ آر سی پی کا کہنا ہےکہ پُرامن اجتماع کا آئینی حق استعمال کرنے والےبلوچ شہریوں سے یہ سلوک ناقابل معافی ہے۔
🔴پریس ریلیز
حکومت کو بلوچ مظاہرین کو سُننا، عورتوں کو رہا کرنا ہو گا
اسلام آباد، 21 دسمبر 2023۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اُن بلوچ شہریوں پر ریاستی تشدد کی پُرزور مذمت کی ہے جو تُربت میں بالاچ بلوچ اور دیگر لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف تُربت سے… pic.twitter.com/LbWHK6Qxfm
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) December 21, 2023
دوسری جانب اسلام آباد میں بلوچستان سے جانے والے لانگ مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں احتجاج جاری ہے۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ کو مستونگ، قلات اور وڈھ میں تین مختلف مقامات پر جب کہ بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی شاہراہ کو بارکھان میں مظاہرین نے ٹریفک کے لیے بند کردیا ہے۔
پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان، ملتان اور کراچی کے علاقے ملیر سمیت پاکستان کے کئی دیگر علاقوں میں بھی احتجاج کیا گیا۔
بلوچستان بار کونسل اور تونسہ بار کونسل نے لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاری اور ان پر تشدد کے خلاف جمعرات کو عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے کوئٹہ میں پارٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے عندیہ دیا کہ لانگ مارچ کے شرکا کو رہا نہ کیا گیا اور مسئلہ حل نہ کیا گیا تو بی این پی سے تعلق رکھنے والے گورنر بلوچستان ملک عبدالولی استعفٰی دے دیں گے۔