عروج جعفری
اسلا م آباد
ماہ رنگ بلوچ کو جب ۲۴ جنوری ۲۰۲۴ کو میں نے الوداع کہا تو میرا دل بھاری تھا، اور اُس کے قدم بھی بوجھل سے لگے، مگر ڈگمگاۓ ہوُۓ نہ تھے۔ دو ماہ تک تقریبا اس نے اپنے بلوچ بہن بھائیوں طالب علموں بزرگوں اور شیر خوار بچوں کے ہمراہ پاکستانی سرکارا ور ریاست کو وہ کڑا وقت دکھایا جو بلوچ سردار اور بلوچ حکمران نہ کر سکے۔
اپنے پیاروں کی گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے شکار کئی گھرانوں کے باپ بھائیوں شوہروں کی بازیابی کے لیے ماہ رنگ نے بلوچستان کے دور افتادہ علاقے تربت سے کئی ایسے گھرانوں کے افراد کے ساتھ اپنا لانگ مارچ شروع کیا تھا جو اسی مخمصے میں جی رہے ہیں کہ ان کے گمشدہ پیارے کبھی لوٹ کر گھر آئیں گے یا نہیں۔
یہ لانگ مارچ ماہ رنگ اور سمی بلوچ کی آواز پر لبیک کہتا، سیلاب کی صورت بڑھتا چلا گیا اور کئی غیر انسانی، غیر اخلاقی قدغنوں کو چیرتا پھاڑتا ملک کے داراحکومت اسلام آباد میں امڈ آیا۔
جب تک یہ اسلام آباد میں داخل ہوئے میں خود کو اپنی صحتیابی سے جڑی پابندیوں کے باعث ان نہتے بلوچ ساتھیوں کو واٹر گنوں سے بچانے، پولیس کے لاٹھی چارج کو للکارنے اور تھانے کے باہر انکے لیے احتجاج کرنے سے رُکی رہی۔
مگر سوشل میڈیا نے مجھے ان محکوموں سے جڑنے کی ترغیب دی۔ ماہ رنگ کی ہر تصویر و تقریر ریاست کو سچائی اور جوابدہی کے اس کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے ملتی کہ جس کا جواب دینا تو درکنار، اسکو تسلیم کرنا بھی ریاست نے اپنی ضد اور انا کا مسٗلہ بنا رکھا ہے۔
مگرمیں نے اس کے دوران یہ ضرور ٹھان لیا تھا کہ مجھے ان کے درمیان جانا ہے، ملنا ہے، ساتھ کھڑے رہنا ہے اور انکی دلجوئی کرنی ہے۔ انکے احتجاجی کیمپ کا خیر مقدم کرنا ہے۔ انکے آنسو اگر پونچھ نہ سکوں، انکے ہاتھ میں رومال تو دے سکتی ہوں۔ ہر ہفتے ان سے ملنے جاتی رہی-کبھی دن میں، کبھی شام،کبھی رات میں۔ ان کا حوصلہ ہر پہر برقرار تھا۔
سماجی لحاظ سے بھی وہ اس زنجیر کو اتار پھینک چکے تھے کہ دو نہتی بلوچ بیٹیوں کی آواز پر وہ ایک جھنڈے تلے جمع ہو سکتے ہیں۔ انکا کیمپ ہمیشہ منظم ہوا کرتا۔ انکے چہرے سوال بن چکے تھے۔ وہ ایسے سوال کا جواب مانگ رہے تھے جس کا جواب ریاست کی اندھیرنگری کا پردہ چاک کر سکتا تھا۔
یہ احتجاجی کیمپ دو ماہ تک پر امن انداز میں جم کے اپنی میخیں گاڑھ چکا تھا۔لیکن جب ان پر دہشت گردی کے لیبل لگائے جانے شروع ہوئے اور انکو خود کش بمباروں کی صف میں شامل کیا جانے لگا تو ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں ان سبھی نے با عزت طور پر واپسی کا رخت سفر باندھا۔
اس کیمپ میں بیٹھا ہر ایک عام بلوچ، عورت ہویا مرد، اب انقلابی بن کر لوٹ رہا تھا۔ یہ انقلاب سوشل میڈیا کے غبار سے ابھرا تھا اور بین الاقوامی ایوانوں سے گزر چکا ہے۔
اسلام آباد سرد موسم، سرد رویّوں اور سرد مہریوں کا شہر ہے۔ اس شہر کی گہما گہمی سے تو نہ لگتا تھا کے ہمارے ہی جیسے درجنوں گھرانے اپنے پیاروں کی بازیابی اور انکی تلاش میں دسمبر اور جنوری کی ٹھٹھرتی سردی میں ایک کیمپ تلے اپنے پیاروں کی تصاویر سینے سے لگائے دن سے رات کررہے ہیں۔
وہی پکڑ دھکڑ، وہی زباں بندی اور میڈیا کی بے حسی نے مجھے اپنے بچپن کا وہ زمانہ یاد دلا دیا جب جنرل ضیا کے تاریک دور میں آواز اٹھانے والوں کو ہی اٹھا لیا جاتا تھا۔ میڈیا جیسے گونگا اور بہرہ ہوجاتا تھا۔ لیکن کچھ جرات مند ایسے تھے جو لکھنے اور اسکی قیمت چکانے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔
اب کی بار کچھ بدلاؤ دیکھا۔ ملک میں ایک بار پھر چنیدہ کے چناو کا ماحول کروٹیں لے رہا تھا مگر کسی بڑی سیاسی پارٹی نے ماہ رنگ اور اسکے ساتھیوں کے احتیجاجی کیمپ کا دورہ تو دور کی بات اپنی بلند و بانگ تقاریر میں تذکرہ تک نہ کیا۔
پاکستان کا نیشنل پریس کلب بھی اپنی پیٹھ دکھاتا ملا۔ بحیثیت صحافی مجھے اب خود بھی اس پریس کلب میں قدم رکھنا شرمندہ کرتا ہے جس نے بھرپور بے حسی سے ریاست کے سرد جبر کا ساتھ دیا۔ اور غیر جانبدارانہ صحافتی اقدار کو مزید ایک بٹہ لگایا۔
اس دوران بڑے بڑے بیوروکریٹ اور اسلام آباد کی انتظامی پرزوں سے ماہ رنگ نے سپاٹ چہرے اور پر عزم گفتار کے ساتھ نمٹا اور انکو یہ باور کرایا کہ بلوچستان اب چپ نہیں بیٹھے گا ۔ یہ مہم اب رنگ لا کر ہی دم لے گی۔