
سپریم کورٹ آف پاکستان
اسلام آباد(اردو انٹرنیشنل) سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا ہے۔
کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں5 رکنی لارجربینچ نے کی،دیگر ججز میں بینچ میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔کیس میں سماعت کے دوران سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پرکالعدم قرار دیا ہے تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون کو آئین سے متصادم 4 ججز نے قرار دیا ہے جب کہ جسٹس یحیٰی نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے کے مطابق چار ججز آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا سیکشن 59(4) غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر نقوی،جسٹس عائشہ ملک نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کاسیکشن 59(4) غیر آئینی قرار دیا جبکہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شقوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق 9 اور 10مئی کے واقعات میں گرفتار افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا بلکہ ان کا ٹرائل کرمنل کورٹ یاقانون کے مطابق قائم خصوصی عدالتوں میں ہوگا۔
فیصلے کے مطابق 9 اور 10 مئی کے واقعات میں گرفتار افراد کے ملٹری ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، 9 مئی کے واقعات میں ملوث تمام افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائیاں غیر قانونی قرار دی جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ چار ججز آرمی ایکٹ کا سیکشن 59 غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔
مختصر فیصلے کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک نے شقیں غیر آئینی قرار دیں۔عام شہریوں کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کی حد تک جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی فیصلے سے اتفاق کیا۔