کرم تنازعہ کی اصل حقیقت: مذہبی جنگ یا سیاسی کھیل؟

0
106
The Reality of the Kurram Dispute Religious War or Political Game
The Reality of the Kurram Dispute Religious War or Political Game

کرم تنازعہ کی اصل حقیقت: مذہبی جنگ یا سیاسی کھیل؟

تحریر جواد شینواری

پس منظر

خیبر پختونخواہ کے قبائلی ضلع کرم کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہاں پر لمبے عرصے سے وقفے کیساتھ فسادات ہوتے رہے ہیں، یہ فسادات زمین اور پانی جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل سے شروع ہوکر مذہبی شکل اختیار کرلیتے جن میں کافی جانی و مالی نقصان ہوتا رہا ہے.

ابھی چھ روز قبل ایسا ہی کچھ مسئلہ اپر کرم میں واقع دو گاوں بوشہرہ اور مالی خیل سے تعلق رکھنے والے مدگی خاندان اور گلاب خاندان کے مابین شروع ہوا جو ضلع کرم کے دیگر حصوں تک بھی پھیل گیا ۔

بوشہرہ کا حدود اربعہ

علاقے میں 2007 سے دو مذہبی گروہوں نے ایک دوسرے سے راہیں جدا کرلیں.مقامی شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ایک گروہ کو پارا چنار (اپر کرم)سے زبردستی نکالا گیا.جس کے بعد وہ لوئر اور سنٹرل کرم میں رہائش پذیر ہوگئے جبکہ دوسرا گروہ اپر کرم میں رہائش پذیر رہا.ایک گروہ بوشہرہ گاوں میں رہائش پذیر ہے جبکہ دوسرا اس کے اطراف میں رہتا ہے.

بوشہرہ کے حدود اربعہ کا تذکرہ کرنے سے پہلے اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ذرائع کے مطابق 2007 سے پہلے کرم میں شیعہ سنی ایک ساتھ رہائش پذیر ہوتے تھے لیکن 2007 کے بعد سنی عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد کو زبردستی پارا چنار ( اپر کرم ) سے نکالا گیا، جس کے بعد سنی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اکثریتی افراد لوئر اور سنٹرل کرم میں رہنے لگے جبکہ شیعہ کمیونٹی کی اکثریت اپر کرم میں رہائش اختیار کر گئی۔

حالیہ کشیدگی جن دو گاوں بوشہرہ اور مالی خیل کے مابین شروع ہوئی تو یہ دونوں گاوں اپر کرم میں واقع ہیں، بوشہرہ گاوں سنی آبادی پر مشتمل ہے جبکہ اس کے چاروں اطراف میں شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد کے گاوں موجود ہے.

گاوں بوشہرہ کے مغرب میں شیعہ آبادی رکھنے والے علاقے شاخ دولت خیل، شین گک، خرلاچی اینڈ بورکی، مشرق میں احمدزئی مالی کلے، صدارہ اور بالش خیل، جنوب میں مالی خیل اور شمال میں پارا چنار ،شلوزان زیران اور لقمان خیل واقع ہے، یہ تمام شیعہ کمیونٹی کے علاقے ہیں۔

حالیہ تنازعہ

اس معاملے پر جب ہم نے مقامی سنی اور شیعہ عقائد سے تعلق رکھنے والے سورسز سے بات کی تو اس پر دونوں کا موقف الگ الگ تھا شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والے ذرائع کا کہنا تھا کہ مذکورہ زمین جس پر تنازعہ ہے وہ گلاب ( شیعہ خاندان ) کی ملکیت ہے، ان کے مطابق گلاب خاندان 70 جریب زمین کے مالک ہے جس میں کچھ زمین بوشہرہ ( سنی آبادی والا گاؤں ) کے قریب ہیں اور مدگی ( سنی خاندان) اس زمین میں سے 9 جریب کی زمین کا دعویدار ہیں، اس معاملے میں سرکاری جرگے بھی ہوئے ہیں اور عدالتی فیصلے بھی ان کے حق میں آئے ہیں۔

دوسری جانب سنی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہمارے ذرائع کا کہنا تھا کہ مذکورہ زمین بوشہرہ میں رہائش پذیر مدگی خاندان کی ملکیت ہے اور شیعہ کمیونٹی سنی کمیونٹی کو تنگ کرنے کے لئے اس زمینی تنازعہ کو جواز بنا کر مذہبی فسادات کرتی ہے۔

فریقین کے ایک دوسرے پر الزامات

حالیہ کشیدگی میں دونوں فریقین ایک دوسرے پر سخت الزامات بھی عائد کررہے. سنی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ شیعہ کالعدم تنظیمیں شیعہ کمیونٹی کو بھڑکا رہی اور شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا الزام ہے کہ سنی کمیونٹی والے علاقوں میں ان کی حمایت سنی کالعدم تنظیم کررہی ہےجو شیعہ کمیونٹی کے خلاف سرگرم عمل ہے، تاہم دونوں جانب سے لگائے گئے الزامات میں کتنی صداقت ہے، اس حوالے سے کوئی واضح شواہد یا ثبوت نہیں ملے.

حالیہ تنازعہ میں ہونے والے نقصانات

حالیہ دنوں میں دونوں گاؤں بوشہرہ اور مالی خیل کے مابین لڑائی بعدازاں ضلع کرم کے دوسرے علاقوں تک بھی پھیل گئی اور دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا جن میں راکٹ ،مارٹر اور میزائل شامل تھیں جس کے نتیجے میں ہسپتال ذرائع کے مطابق اب تک 44 افراد ہلاک جبکہ 176 زخمی ہوئے ہیں

کرم کی مرکزی شاہراہ اور خرلاچی بارڈر ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند ہے اور کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ ممبر قومی اسمبلی حمید حسین اور ممبر صوبائی اسمبلی علی ہادی عرفانی کے مطابق حالیہ کشیدگی کے باعث ضلع کرم میں آمد ورفت کے راستے، تعلیمی ادارے اور انٹرنیٹ سروس تاحال بند ہے جبکہ مارکیٹوں میں اشیائے خور و نوش اور ادویہ کی قلت ہو گئی.

پارا چنار میں ہسپتال اور مارکیٹ میں ادویات ختم ہو چکی ہیں۔ پارا چنار و صدہ شہر پر درجنوں میزائل فائر کئے گئے ہیں۔ پارا چنار سے پشاور تک روڈ بھی ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے۔حکومت نے فائر بندی کے لئے فوری اقدامات اٹھائےْ ہیں .

ثالثین کا کردار

حالیہ تنازعہ میں دونوں فریقین کے مابین کشیدگی کم کرنے کے لئے ضلعی انتظامیہ، قومی جرگہ اور سیکورٹی کے ادارے اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور گزشتہ روز گاوں بوشہرہ ، مالی خیل اور ڈنڈر کے مابین جنگ بندی کی گئی، دونوں فریقین سے مورچے خالی کرلئے گئے اور وہاں پر سیکیورٹی اہلکار تعینات کردیئے گئے ہیں .

تین مقامات پر بھی جنگ بندی کے لئے کوششیں کی جارہی تھیں اور ابھی اطلاعات آرہی ہے کہ ثالثین نے دیگر مقامات پر بھی فریقین کو جنگ بندی کے لئے راضی کرلیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ حالات کو دوبارہ معمول پر لائے اور یہاں پر امن قائم کریں۔

عام لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر بروقت حکومتی سطح پر اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا اور اس کا نوٹس لیا جاتا تو شاید حالات اتنے خراب نہ ہوتے، انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور سیکورٹی ادارے نہ صرف اب بلکہ مستقبل میں بھی اس قسم کے فسادات کو روکنے کے موثر اقدامات اٹھائیں تاکہ جانی و مالی نقصان نہ ہو.