اسرائیل نے غزہ میں 48 روز کے دوران 20سالہ افغان جنگ سے زیادہ شہری قتل کئے،امریکی اخبار
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی اخبار “نیو یارک ٹائمز ” کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں 48 روز کے دوران 20سالہ افغان جنگ سے زیادہ شہری قتل کئے۔ حماس نے مزید 13 یرغمالیوں کو رہا کرکے ریڈ کراس کے حوالے کردیا۔
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک )“امریکی اخبار نیویارک ٹائمز “نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں 48 روز کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں کا دوسری جنگوں سے موازنہ پیش کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے 48 روز میں 20 سالہ افغان جنگ سے زیادہ شہریوں کا قتل کیا۔اخبار کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم میں جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد عراق جنگ کے پہلے ایک سال میں قتل شہریوں کی تعداد سے دوگنی ہے جبکہ غزہ میں ہونیوالا قتل عام یوکرین جنگ میں 2 سال کی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق غزہ جنگ کے پہلے 2 ہفتوں میں استعمال ہونیوالے 90 فیصد بم 2 ہزار پونڈ وزنی تھے، اسرائیل نے غزہ میں 48 دنوں کے دوران حملوں میں 15 ہزار سے زائد شہریوں کو قتل کیا۔
اخبار مذید لکھتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں شہریوں کی ہلاکتوں کو جدید تنازعات کے ایک افسوسناک لیکن ناگزیر حصہ کے طور پر پیش کیا ہے، جو خود امریکہ کی جانب سے عراق اور شام میں چلائی جانے والی فوجی مہموں سے ہونے والے بھاری انسانی نقصان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
لیکن ماضی کے تنازعات اور ہلاکتوں اور ہتھیاروں کے ماہرین کے انٹرویوز کا جائزہ بتاتا ہے کہ اسرائیل کا حملہ مختلف ہے۔اگرچہ جنگ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کبھی درست نہیں ہو گی، ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ سے رپورٹ ہونے والے ہلاکتوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ میں لوگ زیادہ تیزی سے مارے جا رہے ہیں، عراق، شام اور افغانستان میں امریکی قیادت کے حملوں کے مہلک ترین لمحات سے بھی زیادہ، جن پر خود انسانی حقوق کے گروپوں نے بڑے پیمانے پر تنقید کی تھی۔
جنگ میں ہلاک ہونے والوں کا قطعی موازنہ ناممکن ہے، لیکن تنازعات میں ہلاک ہونے والے ماہرین اس بات پر حیران رہ گئے کہ غزہ میں کتنی تیزی سے کتنے لوگ مارے گئے – جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں –
یہ صرف حملوں کا پیمانہ نہیں ہے – اسرائیل نے کہا کہ اس نے حالیہ دنوں میں مختصر جنگ بندی تک پہنچنے سے پہلے 15,000 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا گھنے شہری علاقوں میں بہت بڑے ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال، بشمول امریکی ساختہ 2,000 پاؤنڈ کے بم جو اپارٹمنٹ ٹاور کو چپٹا کر سکتے ہیں، حیران کن ہے۔
اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا کہ غزہ میں بچے، خواتین اور بوڑھے لوگ مارے گئے ہیں لیکن کہا کہ غزہ میں رپورٹ ہونے والی ہلاکتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ علاقہ حماس کے زیر انتظام ہے۔ فوج نے اپنی کوئی گنتی فراہم نہیں کی، لیکن کہا کہ عام شہری اس کی مہم کا نشانہ نہیں ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کونریکس نے کہا کہ “ہم شہریوں کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی روک تھام اور جہاں ممکن ہو، بہت کچھ کرتے ہیں۔” ہماری توجہ حماس پر ہے۔
پھر بھی، محققین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری کے دوران غزہ میں رپورٹ ہونے والی اموات کی رفتار غیر معمولی حد تک زیادہ رہی ہے۔
دوسری جانب عرب میڈیا کے مطابق قطر کے نائب وزیر خارجہ کی قیادت میں وفد غزہ پہنچ گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی عارضی جنگ بندی میں توسیع کی کوشش کررہے ہیں، امید ہے غزہ میں جنگ بندی میں اضافے کی کوشیش کامیاب ہوں گی۔تازہ اطلاعات کے مطابق حماس نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے گئے روسی شہری کی رہائی کا اعلان کردیا۔
حماس نے 13 اسرائیلی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کردیا، جن میں 5 غیرملکی بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی تل عفر جیل منتقلی شروع ہوگئی، فلسطینی قیدیوں کی 2 بسیں مغربی کنارے کی جیل پہنچی ہیں۔دوسری جانب حماس ترجمان کے مطابق غزہ آپریشن میں 4 اہم کمانڈر جاں بحق ہوگئے، جن میں شمالی غزہ بریگیڈ کے سربراہ ابو انس بھی شامل ہیں۔