بنگلہ دیش: حسینہ واجد کی حریف خالدہ ضیاء کو نظربندی سے رہا کر دیا گیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے “الجزیرہ” ے مطابق بنگلہ دیش کے صدر کے دفتر نے اعلان کیا کہ بنگلہ دیش نے مرکزی اپوزیشن جماعت کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء کونظربندی سے رہا کر دیا ہے۔
دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی 78 سالہ خالدہ ضیاء کو 2018 مین بدعنوانی کے ایک مقدمے میں مجرم قرار دیا گیا تھا اور انہیں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ خالدہ ضیاء کو ایک سال بعد ان کی طبیعت خراب ہونے پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا ۔ انہوں نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے انکار کیا ہے۔
خالدہ ضیاء سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کےمخالف تھیں جو پیر کو استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہو گئی تھیں۔
منگل کو صدر محمد شہاب الدین نے ضیاء کی نظر بندی سے رہائی کا اعلان کیا اور طلبہ کی زیرقیادت قومی تحریک کے مطالبات کے بعد پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا۔
خالدہ ضیاء نے 1981 سے بی این پی کی قیادت کی تھی جب ان کے شوہر اس وقت کے صدر ضیاء الرحمان کی ایک فوجی بغاوت کی کوشش میں قتل کر دیے گئے تھے۔ وہ ایک دہائی بعد بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔
1991 سے 1996 اور 2001 سے 2006 تک حکومت کرنے کےبعد خالدہ ضیاء کی مدت ملازمت بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے متاثر ہوئی۔
ان کی رہائی کا اعلان اس وقت ہوا جب آرمی چیف جنرل وقار الزمان طلبہ رہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے تاکہ عبوری حکومت کی تشکیل پر تبادلہ خیال کیا جا سکے .
ملک کی اہم پولیس ایسوسی ایشن نے منگل کو مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران “معصوم طلباء” کے خلاف کارروائیوں پر معذرت کی اور اپنے جیل میں بند افسران کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
بنگلہ دیش پولیس کا ہڑتال کا اعلان:
بنگلہ دیش پولیس ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا کہ جب تک پولیس کے ہر رکن کی حفاظت نہیں ہو جاتی، ہم ہڑتال کا اعلان کر رہے ہیں۔انہوں نے استدلال کیا کہ ان کے افسران کو “فائرنگ کرنے پر مجبور” کیا گیا تھا، اور انہیں “ولن” کے طور پر کاسٹ کیا گیا تھا۔
بنگلہ دیش میں بند سیاسی قیدی
بنگلہ دیش میں حسینہ کی زیرقیادت جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کے اہل خانہ اپنے رشتہ داروں کی خبروں کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، کیونکہ کچھ لاپتہ افراد کو رہا کر دیا گیا تھا۔
منگل کو رہائی پانے والوں میں سب سے نمایاں حزب اختلاف کے کارکن اور وکیل احمد بن قاسم تھے، جو کہ جماعت اسلامی کے سابق رہنما میر قاسم علی کے برطانوی تعلیم یافتہ بیرسٹر بیٹے ہیں، جنہیں 2016 میں ان کی حتمی اپیل مسترد ہونے کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی۔
حسینہ واجد کے دور میں سکیورٹی فورسز پر حزب اختلاف کے ہزاروں کارکنوں کو حراست میں لینے، سینکڑوں ماورائے عدالت مقابلوں میں ہلاک کرنے اور ان کے رہنماؤں اور حامیوں کو غائب کرنے کا الزام تھا۔
ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ 2009 میں حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے “600 سے زائد جبری گمشدگیاں” کی ہیں اور تقریباً 100 افراد لاپتہ ہیں۔حسینہ کی حکومت نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ ہونے والوں میں سے کچھ یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران بحیرہ روم میں ڈوب گئے۔