خیبر پختونخوا میں چیک پوسٹیں ختم اور جرگہ سسٹم بحال کرنیکا اعلان
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈا پور نے کہا ہے کہ قبائلی عمائدین، مختلف اداروں کے نمائندے اور مقامی لوگ خیبر پختونخوا میں امن کی بحالی کے لیے مصروف عمل رہیں گے کیونکہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
خیبر پختونخوا کابینہ کا 13واں اجلاس جاری۔ وزیراعلی علی امین خان گنڈاپور اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔
صوبائی کابینہ اراکین کے علاوہ قائم مقام چیف سیکرٹری اور متعلقہ انتظامی سیکرٹریز اجلاس میں شریک ہیں۔ اجلاس کے لئے 36 نکاتی ایجنڈا تیار کیا گیا ہے۔ pic.twitter.com/CDph4O9Tdd— Chief Minister KP (@KPChiefMinister) September 18, 2024
گنڈاپور نے کہا کہ لوگوں کو کئی چیک پوسٹوں پر مسائل کا سامنا کرنا پڑا جنہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے تعاون کے بغیر امن و امان برقرار نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جرگہ سسٹم کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے۔
“آپریشنز اور ایکشنز سے جو نتائج حاصل ہونے چاہیے تھے، وہ نہیں آئے۔ اب مقامی افراد اور قبائلی عمائدین پر مشتمل جرگے منعقد کیے جائیں گے اور ادارے اور محکمے امن کی بحالی کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں گے۔
وہ گزشتہ روز بدھ کو یہاں سول سیکرٹریٹ میں صوبے میں گڈ گورننس کو فروغ دینے اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے نئے تیار کردہ پورٹل ’’اختیار عوام کا‘‘ کا آغاز کرنے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین، مقامی افراد اور ادارے امن کی بحالی کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں گے۔
*وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے "اختیار عوام کا" شکایات پورٹل کا باقائدہ افتتاح کردیا۔
خیبر پختونخوا کے تمام رہائشی اور اوورسیز پاکستانی اس ایپ کو ڈاؤنلوڈ کریں۔
اینڈرائیڈ موبائیل: https://t.co/KzeJzX94rH…
اپیل موبائیل لنک: https://t.co/GUMECzMxoe… pic.twitter.com/yTA9QK2W55
— Government of KP (@GovernmentKP) September 18, 2024
خیبر پختونخواہ اور جرگہ سسٹم
واضح رہے کہ وفاق کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقہ جات یا جسے فاٹا بھی کہا جاتا تھا کو صوبےخیبر پختوانخواہ کا حصہ بنے چھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔مئی 2018ء میں 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے مذکورہ قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کر دیا گیا اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی ملکی قوانین لاگو کیے گئے لیکن اس کے باوجود قبائلی اضلاع کے عوام کے فیصلے پاکستان کےآئین و قانون کی بجائے مقامی جرگوں میں کیے جاتے رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان میں قومی جرگے پہلے ہی کی طرح متحرک ہیں اور ان کو انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔انصاف کی فراہمی میں پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے شہری ان جرگوں سے خود رابطہ کرتے ہیں۔
جرگہ سسٹم اور پختون کلچر
خیبر پختونخواہ کے قبائلی اضلاع میں جرگہ سسٹم پختون کلچر میں ایک مربوط اور قدامت پسند تاریخ رکھتا ہے اور یہ قبائلی نظام اتنا ہی قدیم ہے جتنی قبائلی اور پشتون روایات، پختون علاقوں بالخصوص قبائلی علاقوں میں عوام انصاف کے حصول اور تنازعات کے حل کے لئے روایتی عدالتی اور پولیس نظام کی بجائے جرگہ سسٹم پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔جرگہ سسٹم کو قبائل کی تاریخ اور قبائلی روایات کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے، بروقت انصاف فراہم کرنے اور تنازعات کے خاتمے کا ایک بہترین پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے جو صدیوں سے اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے.
جرگہ اور پنچائیت کا نظام اور قانونی حیثیت
4 فروری 2017 کو قومی اسمبلی نے ایک ایسے بل کی منظوری دی تھی جو ملک کے پرانے جرگے اور پنچائیت کے نظام کو آئینی اور قانونی مدد فراہم کرتا ہے،اس اقدام کا مقصد عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم کرکے انتہائی سول نوعیت کے معاملات کو جلد از جلد حل کرنا مقصود تھا۔اس وقت ایوان کو بتایا گیا تھا کہ ‘یہ نظام گذشتہ کئی سالوں سے ملک میں موجود ہے اور ہم اسے قانونی مدد فراہم کررہے ہیں’۔
جرگہ نظام بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار
30 اگست 2018 کو اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے جرگہ نظام کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دے دیا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جرگہ یا پنچایت کے پاس سزائے موت اور بچیوں کو ونی کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔ جرگہ یا پنچایت چھوٹے چھوٹے گھریلو معاملات اور دیوانی معاملات دیکھ سکتی ہے۔
سپریم کورٹ،جرگہ اور پنجایت
سترہ جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے جرگہ اور پنجایت کے نظام کو آئین اور پاکستان کی بین الاقوامی یقین دہانیوں کے خلاف قرار دیا تھا۔عدالتی فیصلے میں 25 ویں آئینی ترمیم پر بھی روشنی ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس ترمیم کے بعد فاٹا، خیبرپختونخوا کا حصہ ہے اور صوبے کے عدالتی نظام کی فاٹا تک توسیع ہے۔فیصلے میں خیبرپختونخوا حکومت کو فاٹا میں عدالتی نظام بہتر بنانے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وفاق اور صوبے جرگے یا پنچایت کی غیر قانونی حیثیت سے متعلق عوام میں شعور بیدار کریں اور جرگے یا پنجایت کے فیصلوں کو غیر قانونی تصور کیا جائے۔