اردو انٹرنیشنل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ان کے ساتھ ہونے والی الگ الگ فون کالز میں جنگ کے خاتمے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ٹرمپ نے اعلیٰ امریکی حکام کو ہدایت دی کہ وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کریں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی جب امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے اور روس سے اپنے تمام علاقے واپس لینے کی خواہش چھوڑنی ہوگی۔ یہ بیان امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کو ظاہرکرتا ہے، کیونکہ بائیڈن حکومت نے یوکرین کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد دی تھی اور روس کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے تھی، لیکن اب امریکہ کا رویہ مختلف نظر آ رہا ہے۔
ٹرمپ نے روسی صدر پوتن کے ساتھ ایک گھنٹہ طویل گفتگو کے بعد کہا کہ روسی صدر جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں چاہتے جو کچھ مہینے بعد دوبارہ لڑائی میں تبدیل ہو جائے۔ ٹرمپ نے نامہ نگاروں کو بتایا،”مجھے لگتا ہے کہ ہم امن کی راہ پر گامزن ہیں۔ صدر پوتن اور صدر زیلنسکی دونوں امن چاہتے ہیں اور میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ مزید لوگ مارے جائیں۔”
اس کے علاوہ روسی صدر نے ٹرمپ کو ماسکو دورے کی دعوت بھی دی۔ تاہم، ٹرمپ نے کہا کہ ان کی پہلی ملاقات شاید سعودی عرب میں ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف، قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز اور مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹ کوف جنگ بندی کے مذاکرات کی قیادت کریں گے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی ٹرمپ کے ساتھ گفتگو کی تصدیق کی اور کہا کہ ان کی بات چیت تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوٹس (پریزیڈنٹ آف یونائیٹڈ سٹیٹ) کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے لکھا، “میں نے ایک معنی خیز بات چیت کی۔ ہم نے امن کے حصول کے امکانات پر بات کی اور یوکرین کی تکنیکی صلاحیتوں، بشمول ڈرونز اور دیگر جدید صنعتوں پر تبادلہ خیال کیا۔”
روس نے یوکرین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ کیف مزید علاقے چھوڑ دے اور مستقل طور پر غیر جانبدار ہو جائے۔ دوسری طرف، یوکرین اپنے تمام علاقے واپس لینے کے مطالبے پر قائم ہے۔
یوکرین میں جنگ اب تیسرے سال میں داخل ہو رہی ہے اور اس دوران کوئی باضابطہ امن مذاکرات نہیں ہوئے۔ بائیڈن انتظامیہ نے روس کے خلاف سخت موقف رکھا اور یوکرین کو مسلسل مالی اور فوجی امداد فراہم کی، لیکن ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کے رویے میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔