ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق منگل کو اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری اور ایشیائی ترقی بنک ( اے ڈی بی) کے سربراہ ماساتسوگو آساکاوا کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں معاشی اصلاحات، اقتصادی بحالی اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اے ڈی بی کے صدر نے صدرِ مملکت کے علاوہ وزیراعظم پاکستان اور دوسرے حکومتی عہدیداروں سے بھی ملاقات کی ۔ جس کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کو اگلے تین سالوں میں انفراسٹرکچر کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سالانہ 2 ارب ڈالر امداد فراہم کرے گا۔
اے ڈی بی کے صدر نے پاکستان میں معاشی بحالی اور استحکام کے حالیہ آثار کی بھی تعریف کی۔ دریں اثنا، صدر آصف علی زرداری نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بینک سے “مزید تعاون” کا بھی مطالبہ کیا۔ صدر زرداری نے نشاندہی کی کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور 2022 کے تباہ کن سیلاب نے پاکستان کی معیشت خاص طور پر زراعت، سکولوں اور سڑکوں کے نظام پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
یاد رہے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2022 میں آنے والے سیلاب نے ، بڑے پیمانے پر ملکی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا، جس میں 1,700 افراد ہلاک ہوئے، زرعی زمین کا بہت بڑا حصہ بہہ گیا،اس کے علاوہ اس سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے، اور حکومتی اندازوں کے مطابق، 30 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔
پالیسی اور حکمت عملی کمیٹی (پی ایس سی) اور سیلاب کے بعد کی تعمیر نو کے نگران بورڈ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک کو سیلاب کے بعد تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں سے صرف 10.9 بلین ڈالر موصول ہوئے ہیں۔ تاہم، مجموعی نقصان بہت زیادہ ہے، جس وجہ سے سیلاب سے متاثرہ تین صوبوں میں بحالی کی کوششوں میں تاخیر ہوئی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا 2021 سے 2025 تک پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا منصوبہ تین اہم اہداف پر مرکوز ہے جن میں معیشت کا بہتر انتظام، چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملک کی صلاحیت کو مضبوط بنانا، اور نجی شعبے کی ترقی کے ساتھ ساتھ مسابقت کو بڑھانا شامل ہے۔
اے ڈی بی نے پاکستان کو 2023 کے آخر تک، 755 قرضے، گرانٹس اور تکنیکی مدد فراہم کی، جس کی کل رقم 41.4 بلین ڈالر تھی۔ فی الحال، اے ڈی بی کے پاکستان میں 55 فعال قرضے اور چار گرانٹس شامل ہیں، جن کی مالیت 10.11 بلین ڈالر ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے پاکستان کو دیئے گئے قرضوں اور گرانٹس کی کل رقم 31.76 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ یہ فنڈز مختلف ذرائع سے آئے جن میں باقاعدہ اور کم سود والے وسائل، ایشیائی ترقیاتی فنڈ اور دیگر خصوصی فنڈز شامل ہیں۔