رواں سال پاکستان میں قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد 7 ہوگئی
پشاور(اردو انٹرنیشنل) خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے علاقے مزرینہ میں 18 جون کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاںبحق ہونیوالےصحافی خلیل جبران کی یاد میں ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام پشاور پریس کلب میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا، اس موقع پر صحافیوں نے صوبائی حکومت جرنلسٹس پروٹیکشن مسودہ پر فوری طور پر قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا ہے.
پشاور پریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ 2005 سے جاری ہے اور 40 کے قریب صحافی اب تک شہید ہو چکے ہیں .ارشد عزیز ملک کا مذید کہنا تھا کہ صحافیوں کو تربیت دے رہے ہیں کہ ان حالات میں محتاط رپورٹنگ کریں کیونکہ خبر سے زیادہ جان ضروری ہے.
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی جے پی) نے پاکستان میں صحافیوں کے قتل میں اضافے پر اظہار تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 14 جولائی کو صحافی ملک حسن زیب کو قتل کیا گیا۔ پروگرام ڈائریکٹر سی پی جے کارلوس مارٹنیز نے کہا حکومت صحافی ملک حسن زیب کے قاتلوں کو گرفتار کرے۔ سی پی جے نے کہا رواں سال پاکستان میں قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد 7 ہوگئی۔کارلوس مارٹنیز نے کہا پاکستانی حکام کو صحافیوں کے قتل کی اس خوفناک لہر کو فوری ختم کرنا ہوگا۔
ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس کے صدر قاضی فضل اللہ نے بتایا کہ جس بیلٹ میں ہم رپورٹنگ کرتے ہیں وہ انتہائی حساس ہے کیونکہ یہاں بین الاقوامی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں
قاضی فضل اللہ نے صوبائی حکومت سے شکوہ کیا کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے مخلص نہیں ہیں.انہوں نے صوبائی حکومت سے جرنلسٹ پروٹیکشن مسودہ پر قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا ہے.
تعزیتی ریفرنس میں پشاور پریس کلب اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے ممبران سمیت سینئیر صحافیوں نےشرکت کی۔ٹی یو جے کے صدر قاضی فضل اللہ نے کہا کہ صوبائی حکومت صحافیوں کی تحفظ میں مخلص نہیں انہوں نےکہا کہ صوبائی حکومت جرنلسٹس پروٹیکشن مسودہ پر فوری طور پر قانون سازی کریں.
ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا خلیل جبران نے اپنا قلم ہمیشہ علاقے کے ترقی اور پسے ہوئے طبقے کے حق میں استعمال کیا. انہوں نے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے.
ڈی پی او سلیم عباس کے مطابق خلیل جبران اور سجاد ایڈوکیٹ گھر جا رہے تھے، ملزمان نے انہیں کار سے اتار کر فائرنگ کی۔
وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے صحافی خلیل جبران کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کردی ہے کہ فائرنگ میں ملوث عناصر کی فوری گرفتاری کو یقینی بنایا جائے۔تاہم ابھی تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا.
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی صحافی خلیل جبران کے قتل کی مذمت کی ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2012 سے 2022 تک 53 صحافی مارے گئے۔
فریڈم نیٹ ورک کے مطابق پشاور سے تعلق رکھنے والے آج اخبار کے رپورٹر ملک حسن زیب کو اتوار کو دو موٹر سائیکل سواروں نے قتل کر دیا گیا۔قتل کی وجہ سامنے نہیں آسکی۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی دشمنی نہیں ہے اور نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بندوق برداروں کو صحافی کو قتل کرتے دکھایا گیا ہے۔
##Nowshera – Khyber Pakhtunkhwa
Peshawar-based Aaj newspaper reporter Malik Hasan Zeb is killed by two motorcyclists on Sunday.
Motive of murder unclear. Family says it has no enmity & registers FIR against unknown attackers. CCTV footage shows gunmen killing journalist. pic.twitter.com/vfGaOBpa6m— Freedom Network | فریڈم نیٹ ورک (@pressfreedompk) July 15, 2024
رپوررٹر ود آؤٹ بارڈر کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان دو درجے گر کر 180 ممالک میں سے 152 پر آگیا ہے.پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہر سال تین سے چار قتل ہوتے ہیں .
صحافی خلیل جبران نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ ،دو بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں.خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے خلیل جبران 20 سال سے زائد عرصے سے خیبر نیوز سے وابستہ تھے جبکہ وہ بعض دیگر نیوز اداروں کے ساتھ بھی کام کرچکے تھے۔خلیل جبران سماجی کارکن بھی تھے اور علاقے میں غریب خاندانوں کی امداد کے لیے عطیات کا بندوبست بھی کرتے تھے۔
لنڈی کوتل پریس کلب کے سابق صدر خلیل جبران پشتو میں شاعری بھی کرتے تھے، جس میں وہ زیادہ تر اپنے علاقے کے مسائل پر لکھتے تھے۔