فیض آباد دھرنا کمیشن سابق آرمی چیف، وزیر اعظم کو بلا سکتا ہے: چیف جسٹس

0
59
Faizabad dhrna
Faizabad dhrna

فیض آباد دھرنا کمیشن سابق آرمی چیف، وزیر اعظم کو بلا سکتا ہے: چیف جسٹس

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ‌ڈسیک)اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا اور کمیشن کے ٹی او آرز بھی عدالت میں پڑھ کر سنائے.سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیض آباد دھرنے سے متعلق بدھ کو سماعت جاری رہی جبکہ نگران وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔

فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی کی نو درخواستیں واپس لینے کے باعث انہیں خارج کر دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کو درخواستوں پر سماعت کی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا اور کمیشن کے ٹی او آرز بھی عدالت میں پڑھ کر سنائے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’کمیشن جسے بلائے اور وہ نہ آئے تو کمیشن اسے گرفتار بھی کروا سکتا ہے۔ ٹی او آرز میں شامل کیا جائے گا کہ نظرثانی درخواستیں دائر کرنا حادثہ تھا یا کسی کی ہدایت، یہ ٹی او آرز ایک ہفتے میں شامل کر لیں گے۔‘

عدالت نے اٹارنی جنرل کی جانب سے نوٹیفیکیشن پیش کرنے پر ریمارکس دیے کہ ’فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کو سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، اس وقت کے سابق وزیراعظم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بلانے کا بھی اختیار ہو گا۔ طلبی پر پیش نہ ہونے کا اختیار بھی کمیشن کے پاس ہو گا۔‘

اس سے قبل گذشتہ سماعت پر عدالت نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کر دی تھی اور اٹارنی جنرل کو جلد نیا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ آئی جی اخترعلی شاہ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا ہے۔ تین رکنی کمیشن میں سابق آئی جی طاہر عالم اور ایڈشنل سیکرٹری داخلہ خوشحال خان شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کے گزٹ نوٹیفکیشن میں انکوائری کمیشن کے ٹی او آر بھی شامل ہیں۔ یہ انکوائری کمیشن قیام کے دو ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔‘

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزارت دفاع میں سے کسی کو کمیشن میں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تمام صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت اس کمیشن سے تعاون کرنے کی پابند ہیں، کمیشن کو مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت وجوہات ریکارڈ کر کے مزید وقت دے گی۔

انکوائری کمیشن کے مندرجات

حکومتی نوٹفیکیشن کے مطابق ’انکوائری کمیشن تحریک لبیک پاکستان کی غیرقانونی مالی امداد کرنے والوں کی تحقیقات، فیض آباد دھرنے کے حق میں بیان اور فتوی دینے والوں کے خلاف ایکشن کی تجویز، پیمرا کے خلاف ورزی کرنے والے کیبل آپریٹرز اور براڈ کاسٹرز کے خلاف تحقیقات کرے گا۔‘

نوٹیفیکیشن کے مطابق ’کمیشن میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت اور تشدد پھیلانے کی جانچ اور اس سے بچاؤ کی تجاویز دے گا، انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کوئی پبلک آفس ہولڈر قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب تو نہیں ہوا۔‘

کمیشن یہ بھی تعین کرے گا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں، سرکاری ملازم یا کون سے اشخاص فیض آباد دھرنے میں ملوث ہیں۔ انکوائری کمیشن فیض آباد دھرنے کے ذمہ داران کے خلاف ایکشن تجویزکرے گا اور کمیشن پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھرنوں، ریلیوں اور احتجاج سے نمٹنے کی تجاویز دے گا۔

حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق کمیشن نفرت اور انتہاپسندی پھیلانے والوں کے خلاف وفاقی و صوبائی حکومتوں کو فریم ورک تجویز کرے گا۔ کمیشن انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائے گا۔