آج سے 45 سال قبل 4 اپریل 1979 کو رات دو بجے راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی ۔اس سے قبل 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کا اقتدار سنبھالاتو ستمبر 1977 میں بھٹو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیے گئے۔ اور 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے انہیں سزائے موت سنا دی ۔
قتل کا یہ واقعہ نومبر 1974 میں پیش آیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان انوار الحق کی سربراہی میں سات رکنی ججز کی رائے سے یہ اپیل مسترد کردی ۔ اس فیصلے میں بنچ کے تین ججز نے ذوالفقار علی بھٹو کو بے گناہ قرار دیا تھا ۔تاہم عدالتی روایات سے ہٹ کر اس مقدمے میں تین ججز کے اختلاف کے باوجود قتل کے مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو کو جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا یعنی سزائے موت سنائی گئی۔
دو اپریل 1979 کی صبح بے نظیر کی والدہ عجلت میں ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہتی ہیں کہ ” گھر کے باہر جو فوجی ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم دونوں کو آج ہی تمہارے والد سے ملاقات کرنے جانا پڑے گا اس کا مطلب کیا ہے ؟
بے نظیر بھٹو اپنی سوانح عمری ” ڈاٹر آف ایسٹ ” میں لکھتی ہیں کہ ” مجھے معلوم تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟۔ میری والدہ کوبھی معلوم تھا ،لیکن ہم دونوں اس کو قبول نہیں کر پارہے تھے ۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ ضیاء الحق میرے والد کا قتل کرنےکو تیار تھے۔
مصنف سلمان تاثیر جنہوں نے بھٹو کی زندگی پر کتاب لکھی جن کا بعد میں قتل کردیا گیا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بھٹو پھانسی کے پھندے تک خود چل کر گئے تھے جلاد نے ان کا چہرہ کالے کپڑے سے ڈھانپ دیا تھا ۔ان کے پیر باندھ دیے گئے تھے ۔ جیسے ہی دو بج کر چار منٹ پر مجسٹریٹ بشیر احمد نے جلاد تارا مسیح کی طرف اشارہ کیا تو اس نے لیور کھینچا ۔ بھٹو کے آخری الفاظ تھے “فنش اٹ”
پھانسی کی خبر نشر کرنے میں تاخیر
انور سعید صدیقی نے اپنی کتاب ” ریڈیو پاکستان میں 30 سال” میں بھٹو کی پھانسی کی منظر کشی کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ ہم لوگ جنرل نیوز روم میں گئے جہاں ڈپٹی کنٹرولر سید محبوب علی مرحوم شفٹ انچارج تھے ، وہ رومال سے بار بار اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔ جس سے ہمیں صورت حال کا اندازہ ہوگیا لیکن سرکاری طور پر کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی ، لیکن بی بی سی اور آل انڈیا ریڈیو پھانسی کی خبر نشر کرچکے تھے ۔بعد میں اس راز سے پردہ اٹھا کہ پھانسی تو رات دو بجے دے دی گئی مگر طے یہ پایا تھا کہ جب تک مسٹر بھٹو کی میت نوڈیرو ضلع لاڑکانہ نہیں پہنچ جاتی اس وقت تک اس خبر کو سرکاری طور پر نشر نہیں کیا جائے گا ۔
وہ لکھتے ہیں کہ میت لے جانے والا سی ون تھرٹی طیارہ میانوالی کے قریب کسی فنی خرابی کا شکار ہوگیا تھا جس وجہ سے پائلٹ طیارے کو واپس چکلالہ بیس لایا اور کئی گھنٹے بعد دوسرے طیارے میں میت روانہ کی گئی اور یہ طیارہ صبح سات بجے کے قریب جیکب آباد پہنچا جہاں سے میت کو بذریعہ ہیلی کاپٹر نوڈیرو پہنچایا گیا ۔
ریڈیو پاکستان نے یہ خبر صبح آٹھ بجے کے انگریزی بلیٹن میں نشر کی اور دوپہر بارہ بجے سرکاری پریس نوٹ پر مبنی تفصیلی خبر نشر کی جو کچھ یوں تھی
” مسٹر بھٹو کو آج علی الصبح دو بجے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں پھانسی دی گئی ان کی میت خصوصی طیارے کے ذریعے ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش ضلع لاڑکانہ پہنچائی گئی ۔ جہاں انہیں اہل خانہ کی خواہش پر نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔نمازِ جنازہ میں ان کے رشتے دار اور علاقے کے رہنے والوں نے شرکت کی “۔
عدالتی قتل
لیکن اس قتل کو آج تک عدالتی قتل کہا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ درست نہیں تھا ۔اسی ضمن میں پاکستان کے موجودہ صدر آصف زرداری نے اس سزا کے خلاف 2011 میں ریفرنس دائرکیا جس پر گزشتہ 13 برسوں میں مجموعی طور پر 12 سماعتیں ہوئیں ۔اور بلآخر 6 مارچ 2024 کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بنچ نے یہ کہا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل میں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا ۔ اس دوران مسٹر بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو اپنے وکلاء کے ساتھ کھڑے بار بار رومال سے آنسو صاف کیے جارہے تھے ۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے خود کو ایک بڑے الزام سے بری کیا ہے۔ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جاسکتا ۔ تاریخ میں کچھ فیصلوں نے تاثر دیا کہ عدلیہ نے خوف میں فیصلہ دیا ۔