ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد نئی تجارتی جنگوں کا خطرہ منڈلانے کے بعد یورپی اور چینی رہنماؤں نے منگل کے روز ڈیووس میں باری باری عالمی تعاون کا دفاع کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ رواں ہفتے سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم میں آن لائن شرکت کریں گے، وہ سوئس آلپس میں ہونے والی سالانہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے ایگزیکٹوز اور رہنماؤں کے درمیان ’ہاتھی‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اپنی تقاریر میں یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن، چین کے نائب وزیر اعظم ڈنگ ژوئی سیانگ اور جرمن چانسلر اولف شولز نے دنیا کے ایسے تصورات پیش کیے، جو خود ساختہ ٹیرف سے محبت کرنے والے ٹرمپ کے تصورات کے برعکس ہیں۔
چینی نائب وزیر اعظم نے ٹرمپ کا براہ راست نام لیے بغیر کہا کہ ’تحفظ پسندی آگے نہیں جاتی اور تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز دھمکی دی تھی کہ اگر بیجنگ نے چینی ملکیت والی ایپ ’ٹک ٹاک‘ کو آن لائن رکھنے کی ان کی تجویز مسترد کردی تو وہ اس شرط پر محصولات عائد کردیں گے کہ اس کا آدھا حصہ فروخت کردیا جائے۔
ٹرمپ کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کرنے والے بیجنگ نے ٹک ٹاک کی دھمکی کے بعد کہا تھا کہ اسے امید ہے کہ امریکا، چینی کمپنیوں کو منصفانہ کاروباری ماحول فراہم کرے گا۔
دریں اثنا، ارسلا وان ڈیر لیئن نے مصالحتی لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی ’پہلی ترجیح جلد بات چیت کرنا، مشترکہ مفادات پر تبادلہ خیال کرنا اور ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار رہنا‘ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم پریٹیکل ہوں گے، لیکن ہم ہمیشہ اپنے اصولوں، مفادات کے تحفظ اور اپنی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے کھڑے رہیں گے‘۔
یورپی کمیشن کی صدر نے یہ بھی کہا کہ یورپ کو چین کے ساتھ تعمیری طور پر بات چیت کرنی چاہیے، تاکہ دونوں فریقین کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی کے باوجود ہمارے باہمی مفاد کا حل تلاش کیا جاسکے۔
برسلز نے گرین ٹیک سیکٹر میں ریاستی سبسڈیز کو ہدف بنانے کے ساتھ ساتھ چینی الیکٹرک کاروں پر محصولات عائد کرنے کی تحقیقات کے ذریعے بیجنگ کی ناراضی کو بھڑکا دیا ہے۔
یورپی یونین کے اقدامات کا براہ راست حوالہ دیتے ہوئے چین کے نائب وزیر اعظم نے خبردار کیا کہ ’گرین بیریئرز کھڑے نہ کیے جائیں، جو معمول کے معاشی اور تجارتی تعاون میں خلل ڈال سکتے ہیں‘۔
تجارتی معاہدے
انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ یورپی یونین اور چین سمیت اپنے اتحادیوں پر اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کریں گے۔
حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
وان ڈیر لیئن نے اپنی تقریر کے دوران سوئٹزرلینڈ، میکسیکو اور جنوبی امریکی بلاک ’مرکوسر‘ کے ساتھ یورپی یونین کے حالیہ معاہدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آزاد تجارت کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی شراکت داری کو اپ گریڈ کرنا چاہتے ہیں۔
اولف شولز نے دیگر شراکت داروں کے ساتھ آزاد تجارت کا دفاع کرنے کا عہد کیا اور متنبہ کیا کہ ’تنہائی‘ کی قیمت خوشحالی ہوتی ہے، صدر ٹرمپ کہتے ہیں ’امریکا فرسٹ‘ اور ان کا مطلب یہی ہے۔
شولز نے کہا کہ اپنے ملک کے مفادات کو ذہن میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ صرف اتنا ہے کہ دوسروں کے ساتھ تعاون اور تفہیم عام طور پر آپ کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔
اگلے ماہ ہونے والے جرمن انتخابات سے قبل ڈیووس میں چانسلر کی حیثیت سے اولف شولز کی یہ شاید آخری تقریر تھی۔
شولز نے اپنی تقریر میں ٹیسلا کے مالک ایلون مسک کو تنقید کا نشانہ بنایا، جنہوں نے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی حمایت پر چانسلر کو ناراض کر دیا ہے، شولز نے کہا کہ ہمیں یورپ اور جرمنی میں اظہار رائے کی آزادی ہے۔