اسلام آباد ہائیکورٹ کا مبینہ آڈیو لیکس کی کاپی ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجنے کا حکم

0
78

اسلام آباد ہائیکورٹ کا مبینہ آڈیو لیکس کی کاپی ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجنے کا حکم

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کے درمیان ہونے والی گفتگو سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے اس درخواست کی کاپی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ گیارہ دسمبر تک اپنے تئیں تحقیقات کر کے بتائیں کہ دو افراد کے درمیان ہونے والی نجی گفتگو کس نے لیک کیا۔

یہ حکم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی درخواست پر دیا ہے۔

عدالت نے ایف آئی اے کے حکام کو بھی اس معاملے سے متعلق فرانزک تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے درخواست پر عائد اعتراضات بھی ختم کر دیے اور پیمرا کو حکم دیا ہے کہ ’پیمرا بتائے کہ لوگوں کی نجی گفتگو کیسے ٹی وی چینلز پر نشر ہو رہی ہے؟‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ’درخواست پر رجسٹرار آفس کا کیا اعتراض ہے؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اعتراض ہے کہ الگ درخواست دائر کریں، متفرق درخواست کیسے کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آڈیو لیکس کیس میں متفرق درخواست دائر ہو سکتی ہے۔ وکیل اور مؤکل کے درمیان گفتگو پر استحقاق ہوتا ہے۔‘

بینچ کے سربراہ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کیا اور کسی ادارے کے سربراہ کا نام لیے بغیر کہا کہ ’بگ باس سب سن رہا ہوتا ہے آپ کو تو پتا ہونا چاہیے۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟ جس کا درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ سب کو پتا ہے کون ریکارڈ کرتا ہے۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ہم مفروضے پر تو نہیں چل سکتے، جس پر سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ میرا نہیں پورے ملک کے وکلاء کا مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’وکیل موکل سے آزادی سے بات نہ کر سکے تو نظام انصاف کیسے چلے گا۔‘

بینچ نے استفار کیا کہ ’کیا آڈیو سوشل میڈیا پر آئی ہے؟‘ جس پر بشری بی بی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’آڈیو تمام ٹی وی چینلز نے نشر کی۔‘

عدالت نے استفسار کیا کہ ’یہ آڈیو سب سے پہلے ٹوئٹر پر آئی یا کہیں اور؟ انھوں نے کہا کہ یہ معلوم ہو جائے ریلیز کہاں ہوئی ہے تو پتا چل سکتا ہے ریکارڈ کس نے کی۔‘

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’پیمرا ویسے تو کسی کا نام لینے پر بھی سکرین بند کر دیتا ہے، اور اس آڈیو کے بعد مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا کہ آپ کا فون محفوظ نہیں۔

عدالت نے مزید سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کر دی